|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2015

کو ئٹہ: گوادر اور بلوچستان کے ساحل وسائل جو بلوچوں کی ملکیت ہیں اس پر پہلا حق غیور بلوچوں کا حق ہے بلوچستان کو مکمل واک و اختیار دیا جائے شہید نور الدین مینگل نے اپنے ہی پوری زندگی قدم ہو کر سیاسی جدوجہد کی پارٹی تعصب کے نام سے نفرت کرتی ہے لیکن بلوچ قومی اور اپنی تاریخ ، زبان و ثقافت کو افغان مہاجرین کے ذریعے ملیامیٹ ہونے نہیں دے گی کوئٹہ کے باشعور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ کوئٹہ کے گردونواح کے کن کن علاقوں میں افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا حقائق تلخ ضرور ہوتے ہیں جعلی حکمرانوں کے دور میں 40لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کسی صورت قبول نہیں حکمرانوں افغان مہاجرین سے حوالے سے دوغلی پالیسی نہ اپنائیں اکیسویں صدی میں کسی کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ان خیالات کا اظہار شہید نور استعمان نور الدین مینگل کی پانچویں برسی کے موقع پر کلی گشکوری بلوچ کارواں میں تعزیتی جلسہ سے پارٹی کے مرکزی میڈیا سیل کے سربراہ آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر جاوید بلوچ ، ضلعی جنرل سیکرٹری غلام نبی مری ، ضلعی نائب صدر یونس بلوچ ، مرکزی میڈیا سیل کے ممبر موسیٖ بلوچ ، احمد نواز بلوچ ، میر مراد مینگل ، شاہ خالد مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کیا اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ملک محی الدین نے سر انجام دیئے اس موقع پر ڈاکٹر علی احمد قمبرانی ، اسد سفیر شاہوانی ، حاجی فاروق شاہوانی ، حاجی ابراہیم پرکانی ، کونسلر ملک نصیر قمبرانی ، کونسلر مجیب الرحمان لہڑی ، رضا جان شاہی زئی ،میر زگرین مینگل ،میر مراد مینگل ،ٹکری صدام حسین ، ثناء مسرور بلوچ ،اورنگزیب مری ، میر عبدالکریم لانگو ، مصطفی مگسی ، آصف مینگل ، شکیل بلوچ ، حاجی کریم شاہوانی ، کامریڈ ماما اشرف جدون ، زاہد خان شاہی زئی ، صدام حسین بلوچ ، امانت مسرت ، لطیف نیچاری و دیگر بھی موجود ہے اس موقع پرسینکڑوں دوستوں نے پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کیا مقررین نے خطاب کرتے ہوئے شہید نور الدین مینگل کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید نے اپنی پوری زندگی ثابت قدمی ، مستقبل مزاجی کے ساتھ مسلسل و طویل جدوجہد کے ساتھ گزاری ان کی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں وہ ایک نظریاتی سیاسی استاد تھے آج وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے لیکن ان کا نظریہ ، سوچ کو ہم سے جدا کرنا ممکن نہیں ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے لئے نہیں قومی مفادات کیلئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ہیں ان کی جدوجہد رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی شہید نور الدین مینگل انقلابی بلوچ شاعر میر گل خان نصیر کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس انقلابی شاعر نے بلوچ زبان کی ترقی و ترویج کیلئے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور عظیم بلوچ اکابرین کی حیثیت سے32 سال قیدوبند میں گزاری اور بلوچ قوم جہد کو مضبوط و مستحکم کیا انہی اکابرین کی قیدوبند کی صعوبتیں اور قربانیاں ہی بلوچ جغرافیائی اور مادر وطن بلوچستان کی حفاظت کر کے ان شہداء نے اپنی قربانیوں سے اپنی 9ہزار سالہ بلوچ تاریخ ، زبان و ثقافت کا دفاع کیا مقررین نے کہا کہ آج وقت و حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بی این پی جو شہداء کی جماعت ہے پارٹی کی بڑی تعداد میں ساتھیوں نے بلوچ قومی جہد کیلئے جام شہادت نوش کیا اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا آمر جنرل مشرف کے دور سے شروع ہونے والے آپریشن کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا اور ثابت قدم ہو کر یہ ثابت کیا کہ بلوچوں کے خلاف جتنے مظالم کئے گئے چاہئے وہ پرتگالی یا دیگر سامراج جیسے تھے ان کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اپنے جغرافیہ کی حفاظت کیلئے جام شہادت نوش کیا تاریخ بتاتی ہے کہ سرزمین بلوچستان جو ہمارے آباؤاجداد کی سرزمین ہے کسی نے خیرات یا تحفے میں نہیں دی مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے جملہ مسائل اور بلوچستان کے حقیقی اور عملی جدوجہد کی پاداش میں پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں حبیب جالب بلوچ سمیت دیگر اکابرین کو شہید کیا گیا چھ نکات جو بلوچوں کے اہم نوعیت کے مسائل تھے ان کو سپریم کورٹ میں پیش کر کے آواز بلند کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم دنیا کو بتاسکیں کہ بلوچ قوم ایک تہذیب یافتہ ، سیاسی سوچ سے وابستہ قوم ہے جو اپنے لاپتہ افراد ، انسانی حقوق کی پامالی اور بلوچستان کے جملہ مسائل اور مشرف کے آپریشن و ظلم و زیادتیوں کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کر کے یہ ثابت کیا کہ بی این پی ہی عملی اور قومی جمہوری جدوجہد کے ذریعے حقوق کیلئے نبرد آزما ہے مقررین نے کہا کہ اسی پاداش میں پارٹی کا راستہ 2013ء کے دھاندلی زدہ الیکشن میں روکا گیا لوگ اس خام خیالی میں تھے کہ شاید پارٹی کا راستہ روک کر اس پارٹی کو دیوار سے لگایا جا سکے گا پارٹی کے اکابرین نے کبھی گروہی اور ذاتی مفادات کیلئے سیاست نہیں کی بلکہ قوم ، وطن اور ظلم و زیادتیوں کے خلاف قومی جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کیلئے عملی جدوجہد کی ہمارے جدوجہد کا محور و مقصد بلوچ عوام کی ترقی و خوشحالی ہے اقتدار اور وزارتیں ہمارا محور و مقصد نہیں ہم بلوچ جدوجہد کو جہاد کا درجہ دیتے ہیں کیونکہ اصل اور عملی جہاد مظلوم کے حقوق اور پسماندہ غیور عوام کے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں مقررین نے کہا کہ ہم تعصب ، شاؤنزم کے سیاست کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ہم نے ہمیشہ قوموں کے باہم اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیا ہے لیکن یہ کوئی نہ سمجھے کہ ہم اپنی قومی ذمہ داریوں سے غافل رہیں گے ایک مسلمہ قانون اور اصول ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کسی مہاجر کو ملکی دستاویزات ، شناختی کارڈ جاری نہیں کی جا سکتیں لیکن 2013ء کے جعلی حکمران جو افغان مہاجرین کے متعلق دہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں مہاجرین کے حوالے سے ان کے پاس کوئی پالیسی واضح نہیں کوئٹہ کے باشعور حقیقی بلوچستانی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ شہر کے گردونواح کے کن کلیوں اور گلیوں میں افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں یہ کہنا درست نہیں کہ کوئٹہ میں افغان مہاجرین نہیں حقائق تلخ ضرور ہیں لیکن انہیں چھپانا ممکن نہیں مقررین نے کہا کہ گوادر سمیت بلوچ ساحل وسائل پر پہلا حق بلوچ غیور عوام کا ہے کیونکہ وسائل بلوچ سرزمین کے ہیں اس پر پہلا حق بلوچوں کا ہے اگر حکمران واقعی بلوچوں کے ساتھ مخلص ہیں تو فوری طور پر گوادر پورٹ کے اختیارات بلوچوں کو دیئے جائیں اور بلوچستان کے عوام جو اقلیت میں تبدیل ہونے جا رہے ہیں ان کے حوالے سے قانون سازی کی جائے اور کسی غیر ملکی یا غیر صوبے سے آنے والوں کو یہاں پر شناختی کارڈز ، لوکل ، ڈومیسائل اور انتخابی فہرستوں میں ان کے ناموں کا اندراج نہ کیا جائے بلوچوں کے سامنے راہداری روٹ کی اہمیت نہیں ہمیں بلوچستان کے ساحل وسائل پر مکمل اختیار، حق حاکمیت اور حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے جو ہمارا آئینی قانونی حق بھی ہے مقررین نے کہا کہ بی این پی کے سہ رنگا بیرک بلوچ عوام کے عزت و نفس ، سرزمین کی حفاظت، چادر و چار دیواری کے تقدس کے خلاف ہونے والے اقدامات کے خلاف آواز بلند کرتی رہے گی مقررین نے گزشتہ دنوں اسپلنجی اور بلوچستان کے دیگر بلوچوں میں غیر قانونی چھاپوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ پارٹی ماورائے عدالت اقدامات کی مذمت کرتی رہے گی بلوچستان کے مسائل جو حل طلب ہیں ان کو طاقت کے بجائے سیاسی انداز میں حل کیا جائے بلوچستان میں ماورائے عدالت کارروائیاں بند کی جائیں اور لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے انسانی حقوق کی پامالی بند کی جائے جمہوری جدوجہد کے خلاف ہونے والے اقدامات بند ہو جائیں ۔