کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے گزشتہ روز لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرنسز کی نکالی جانے والی ریلی پر پابندی کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لئے جمہوری احتجاج کو روکنا بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں کے خلاف ریاستی پابندیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرنسز ایک غیر سیاسی اور پر امن تنظیم ہے جو کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف پچھلے کئی سالوں سے احتجاج پر ہے، اس کے باوجود انہیں علی اصغر بنگلزئی کی اغواء نما گرفتاری کو 14 سال مکمل ہونے پر ریلی کی اجازت نہ دینا بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی کے مترادف ہے۔ریاستی ادارے اپنے ہی آئین کے برعکس بلوچستان میں کام کررہے ہیں جس کی مثال بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی، ماورائے قانون قتل و لاشیں پھینکے اور اس طرح کی کاروائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی تنظیموں پر پابندیاں ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کے تمام ذرائع کو سیاسی تنظیموں پر پابندی اور ان کے کارکنان کی اغواء کی صورت میں پہلے سے ہی انتہائی مسدود کردیا گیا تھا، لیکن نام نہاد ایپکس کمیٹی اور تحفظ پاکستان جیسے ظالمانہ قوانین کے بعد بلوچستان میں انسانی حقوق کے تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہیں۔انہوں نے کہا خودریاستی اداروں نے دیدہ دلیری کے ساتھ صرف رواں سال لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد کے اغواء اور سینکڑوں نوجوانوں کی ماورائے عدالت قتل کرنے کی تصدیق کی۔ حکومتی نمائندوں کی تصدیق و اعترافی بیانات کے باوجود انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں کی خاموشی کے بعد ریاستی ادارے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جیسی تنظیموں کی پر امن احتجاج پر پابندیاں عائد کررہی ہیں۔ اس طرح کی پابندیاں مستقبل قریب میں بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف پہلے سے جاری ریاستی کریک ڈاؤن میں شدت لانے کا عندیہ ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔ گزشتہ روز جھاؤ کے علاقے جکی میں فورسز نے محمد رحیم کے گھر پر چھاپہ مار کر محمد رحیم کے جوان سال بیٹے حمل بلوچ کو شہید کردیا، جبکہ خواتین و بچوں سے بدتمیزی کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گھروں کو قیمتی سامان سمیت نظر آتش کردیا، اس کے علاوہ آج پنجگور میں فورسز نے فوجی کاروائیوں کے دوران تین بلوچ نوجوانوں کو شہید کردیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والے تمام سردار، نوابوں اور نام نہاد پارٹیوں کے ہاتھ نہتے بلوچ عوام کے خون سے رنگے ہیں۔ لیکن ریاستی فورسز کے سول اداروں کا کردار ادا کرنے والی پارلیمانی جماعتوں کو یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ طاقت کے استعمال اور نہتے بلوچ عوام کا قتل عام کرکے وہ بلوچ آزادی کی تحریک سے عوام کی وابستگی کو ختم نہیں کرسکتے۔