|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2015

پاکستان کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے آئی سی سی کے ریویو سسٹم(ڈی آر ایس) پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امپائر کو شک کے فائدے کا فیصلہ دینے کی اوسط بڑھا کر 50 سے 75 فی صد تک کر دینی چاہیے۔ مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کو دیے گئے انٹرویو میں وقار کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام کی وجہ سے میچ آفیشلز بے فکری اور اطمینان کے ساتھ فیصلے کر لیتے ہیں۔ وقار یونس کا مانناہے کہ مختلف زاویوں کے نام پر مشکل میں ڈالا گیاہے جیسا پچنگ پوائنٹ، پوائنٹ آف امپیکٹ اور گیند اسٹمپ کو چھورہی ہے یا نہیں۔ موجودہ نظام کے تحت اگر امپائر بائولر کی اپیل پر آئوٹ نہیں دیتا ہے اور ٹی وی ری پلے میں گیند کا نصف حصہ اسٹمپ سے باہر ہو تو فیصلے کو تبدیل نہیں کیا جاتاہے۔ وقار کا کہناتھا کہ “میں پورے وثوق سے کہہ رہاہوں کہ 50 فی صد والا فارمولا کھلاڑیوں کے حق میں نہیں ہے۔ انھیں معمولی سے 70/30 یا 75/25 سے بھی آئوٹ دینا چاہیے۔ اگر گیند لائن میں گرے تو50 فی صد کی بنیاد کے بجائے25 فی صد پرآئوٹ دینا چاہیے، بعض اوقات جب گیند 49 فی صدلائن میں ہو تب بھی آئوٹ نہیں دیا جاتا یہاں تک کہ پورا یقین ہوتا ہے کہ گینڈ وکٹ پر تھی، یہیں سے تناؤ میں اضافہ شروع ہوتا ہے، اس لیے سارے نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔” “اگر گیند 30 فی صد بھی وکٹوں پر ہو تب بھی آئوٹ دینا چاہیے نہ کہ 50 فی صد کا انتظار کیا جائے۔ ڈی آر ایس سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس میں تمام عناصر کو شامل کیا جانا چاہیے ورنہ اس سے مزید تنازعات جنم لیں گے۔ ” پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان جاری سیریز میں ڈی آر ایس سسٹم استعمال کیا جارہاہےلیکن اس میں ہاٹ اسپاٹ اور اسنکومیٹر شامل نہیں کیونکہ اس کے استعمال سے اخراجات روزانہ چھ ہزارڈالر سے تجاوزکرجاتے۔ اسی لیے وقاریونس سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا آدھا استعمال معقول بات نہیں ہے۔ ان کاکہناتھا”کہ یہ آدھا ڈی آر ایس قابل قبول نہیں ہے اس طرح کا نظام ٹھیک نہیں لگتا۔ یا تو آپ اس کو استعمال ہی نہیں کریں یا پھر اس کو مکمل استعمال میں لائیں۔ ہمارے سامنے بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں آئی سی سی کو اس طرف دھیان دینا چاہیے اور ان تمام چیزوں پر ایک باڈی کو اختیار ہوناچاہیے۔” وقار یونس کا مزید کہناتھا کہ” بعض اوقات ایک خراب فیصلہ پورے گیم کو خراب کردیتاہے جیسا ابوظہبی میں ہمارے ساتھ ہوا۔ میری آئی سی سی سے ملاقات ہوئی تھی اور انھیں پیرامیٹرز کو دوبارہ جانچنے کو مشورہ دیا تھا۔ انھوں نے حامی بھری تھی اور مجھے امید ہے کہ کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ میں اس پر توجہ دی جائے گی۔”