کوئٹہ: حکومت پاکستان نے غیررسمی طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی پاکستان میں مزید قیام کیلئے توسیع نہ کی جائے۔ اس سے قبل حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کے قیام میں گزشتہ دور میں توسیع کی تھی جواب 31دسمبر2015ء کو ختم ہورہی ہے۔ جن میں غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں جن کے خلاف ریاست پاکستان نے سفارتی وجوہات کی بناء پر کارروائی نہیں کی اور ان کی موجودگی کو’’نظرانداز ‘‘کردیاتھا۔ واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں کابل میں ایک سہ فریقی کانفرنس اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کی سربراہی میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں پاکستان افغانستان اور ایران کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ متعلقہ ممالک سے درخواست کی جائے کہ افغان مہاجرین کے قیام میں مزید دو سال کی توسیع کی جائے۔ سہ فریقی کانفرنس کا فیصلہ سفارشی تھا اوران کو متعلقہ حکومتیں توسیع کرینگے پھر اس کے بعد عملدرآمد ہوگا۔ افغان صدر اشرف غنی بھی اس اجلاس میں شریک ہونے والے تھے مگر وہ شرکت نہ کرسکے کیونکہ طالبان نے قندوز پر حملہ کردیا تھا اور شہر کے بعض حصوں پرقبضہ کرلیا تھا۔ ادھر اقوام متحدہ برائے مہاجرین کے ترجمان دنیا اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ فیصلہ سفارشی نوعیت کا ہے اور اس کی توسیع صرف وفاقی کابینہ کرسکتی ہے۔یہ سفارش افغانستان میں موجود حالات اور سیکیورٹی کے پیش نظر کی گئی تھی کہ افغان حکومت کو حالات بہتر کرنے کیلئے مزید وقت دیاجائے لیکن اس بات کو انتہائی یقین کے ساتھ کیا جاسکتا ہے کہ وفاقی کابینہ اس فیصلے کی توثیق نہیں کرے گی اور 31دسمبر2015ء کے فوری بعد افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان میں مزید قیام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم ان کی وطن واپسی میں ان کے عزت واحترام کا خاص خیال رکھا جائے گا۔’’ہم افغانیوں کو پاکستان بدر راتوں رات نہیں کررہے ہیں ان کی واپسی کو ممکن ہونے میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔‘‘ ایک سرکاری افسر نے وائس آف امریکہ اردو سروس کو انٹرویو میں بتایا۔ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغانی باشندوں کو پاکستان کیلئے سیکیورٹی رسک قرار دیا ہے۔ اکثر دہشت گردی کے واقعات میں بعض افغان باشندے ملوث پائے گئے ہیں یا ان کے پاؤں کے نشانات ملے ہیں۔ اس سے کئی ایک حملوں میں دہشت گردی کے واقعات کو افغان علاقوں سے کمان کیا گیا تھا۔ کم سے کم دوبار سرحد پار سے سیکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔ انگور اڈہ شمالی وزیرستان میں ایف سی کے سات سپاہی شہید ہوئے تھے۔ سفارتی تعلقات کی وجہ سے پاکستان نے افغانستان کے خلاف کوئی سخت اقدمات نہیں اٹھائے بلکہ سرتاج عزیز نے دھیمے لفظوں میں پاکستان کا سخت مؤقف بیان کیا۔ تاہم یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یانا م نہاد بین الاقوامی برادری کا ردعمل کیا ہوگا۔