|

وقتِ اشاعت :   November 6 – 2015

اسلام آباد :  سینٹ میں وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری کے 36 منصوبوں پر چین کے ساتھ اتفاق تیسرے اجلاس میں ہو گیا ہے‘ ان منصوبوں میں تین پارٹس شامل ہیں جس میں بجلی‘ ٹرانسپورٹ اور بنیادی ڈھانچوں کے حصے شامل ہیں جو کہ گوادر سے شروع ہونگے جبکہ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان نے کہا ہے کہ کابینہ کمیٹی سی سی او بی کے وسیع البنیاد پروگرام کے 69 یونٹ اور اداروں کی منظوری دی ہے جن کی نجکاری زیر غور ہے ان میں پاکستان سٹیل مل‘ مختلف بنک‘ آئل گیس انرجی‘ فرٹیلائزرز‘ انجینئرنگ‘ منرل اینڈ نیچرل ریسورسز‘ انفراسٹرکچر‘ ٹرانسپورٹ‘ ٹور ازم اور ٹیلی کام کے مختلف ادارے شامل ہیں۔ جمعرات کے روز وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر کلثوم پروین کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے ایوان بالا میں کہا کہ 27 اگست 2014ء کو عوامی جمہوریہ چین کے نیشنل ڈیولپمنٹ ریفارم کمیشن اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت منصوبہ کے درمیان منعقد ہونے والی مشترکہ تعاون کمیٹی کے تیسرے اجلاس کے دوران فوری پیداوار کے 36 منصوبوں جس میں بجلی‘ ٹرانسپورٹ اور بنیادی ڈھانچوں سمیت گوادر کے دیگر منصوبوں پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیکس کے تحت رقم دی جا رہی ہے۔ اس منصوبے کے تین حصے ہیں جس میں بجلی‘ ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔ جب روڈ بن جائیں گے تو پھر انڈسٹریوں کا کام بھی شروع ہو جائے گا۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی گیس شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ڈائریکٹر آف بورڈ کو اداروں کی بہتری کے لئے تعینات کیا جاتا ہے اس میں صوبوں کی نمائندگی ضروری نہیں ہوتی۔ اگر کسی صوبے سے لوگوں کی نمائندگی نہیں ہوئی تو آگاہ کیا جائے حکومت معاملے کو نمٹا دے گی۔ سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ جب ہمارے صوبوں کے لوگوں کو بورڈز میں شامل نہیں کیا جائے گا تو پھر ہم کس طرح پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے۔ جس پر شاہد خاقان نے کہا کہ سیکیورٹی پالیسی بورڈ جو کہ نہایت اہم ہے اس میں بھی ہم نے تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی دی ہے ابھی ہمیں آگاہ کر دیا جائے مشاورت سے تعیناتیاں ہو جائیں گی۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نجکاری پر کابینہ کمیٹی سی سی او بی کے وسیع البنیاد پروگرام کے 69 یونٹ اور اداروں کی منظوری دی ہے جن کی نجکاری زیر غور ہے ان میں حبیب بنک‘ یو بی ایل‘ الائیڈ بنک‘ نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ لمیٹڈ‘ فرسٹ وویمن بنک‘ نیشنل بنک‘ نیشنل انشورنس کمپنی‘ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن‘ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی‘ سوئی نادرن گیس پائپ لائن‘ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی‘ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی‘ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ جامشورو پاور جنریشن کمپنی‘ نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن‘ پاکستان انجینئرنگ کمپنی‘ پاکستان مشین ٹول فیکٹری‘ نیشنل کنسٹرکشن لمیٹڈ‘ سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ‘ پاکستان سٹیل مل کارپوریشن‘ پاکستان سٹیل فیبریکیٹنگ کمپنی‘ پاکستان منرل ڈویلپمنٹ‘ انفراسٹرکچر ٹرانسپورٹ‘ ٹور ازم اور ٹیلی کام کے دیگر ادارے شامل ہیں۔ حکومت اداروں کی بہتری کے لئے پرائیویٹائز کرنے کی کوشش کرتی ہے اس میں کوئی حکومت کا اپنا بزنس شامل نہیں ہوتا۔ 90ء کی دہائی سے پرائیویٹائزیشن کا مرحلہ چل رہا ہے لیکن ہماری واحد حکومت ہے جو کہ مزدوروں کو نقصان نہ ملنے کے لئے سکیمیں بھی متعارف کروا رہی ہے۔ سینیٹر سمینہ عابد کے سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام کے تحت مستحق لوگوں کو فنڈز مل رہے ہیں اور اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں بلکہ مختلف اداروں کے سروے کے بعد ہی نادار اور مفلس لوگوں کو بی آئی ایس پی کے تحت کیش پیسے دیئے جاتے ہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین کے ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے بتایا کہ بلوچستان کی ترقی کے لئے گوادر میں اقتصادی راہداری کے تحت مختلف منصوبوں سے آراستہ کیا جائے گا۔ سی پیکس میں بھی بلوچستان کی ترقی کے منصوبے موجود ہیں۔ ماضی کی حکومتوں سے زیادہ ہماری حکومت نے بلوچستان کی ترقی کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ 11.7 بلین کی گرانٹ میں بھی بلوچستان کی ترقی کے لئے بڑی رقم موجود ہے۔ بلوچستان کو اس کے شیئر سے زیادہ مہیا کیا جا رہا ہے۔ سینیٹر کریم خواجہ کے سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ جن شہروں میں کاروبار زیادہ ہوتا ہے وہاں پر بنکوں کی برانچوں کو کھولا جاتا ہے لیکن اگر گلگت بلتستان کے کچھ شہروں میں برانچیں نہیں ہیں تو وہاں پر مشاورت کے بعد غور کر کے برانچیں کھول دی جائیں گی۔ اس معاملے پر ہمیں کوئی ذاتی اختلافات نہیں ہیں۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ کے ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ مجموعی طور پر ٹیکس شرح کے اضافے کے لئے حکومت ایف بی آر پر زور دیتی رہتی ہے لیکن تاحال ہمیں ٹیکس کی شرح ویسے حاصل نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہئے اس کے لئے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔سینیٹر کریم خواجہ کے ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ نیشنل بنک آف پاکستان میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کی پانچ سال مدت ہوتی ہے اور کنٹریکٹ کی بنیاد ادارے میں مختصر طور پر بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ ایسی پالیسی کہیں بھی نہیں ہے کہ کنٹریکٹ اہلکاروں کو ہر حالت میں ریگولرائز کیا جائے