|

وقتِ اشاعت :   November 21 – 2015

کوئٹہ :  بلوچستان اسمبلی نے ایران اور پاکستان کے درمیان درآمد اور برآمد پالیسی برابری کی بنیاد پر وضع کرنے ہیلتھ ایکسپورٹ سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے شرائط کو ختم کرنے کے علاوہ پاکستانی چاول کے نمونوں کی جانچ زاہدان میں کرنے سے متعلق قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دیدی جبکہ خنائی مسلم باغ کا تاہرنائی اور کچ ہرنائی کا تا زیارت سنجاوی سڑکوں کو این ایچ اے کے حوالے سے متعلق قرارداد موخر کردی گئی اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے قائمقام سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ہوا اجلاس میں سردار اختر جان مینگل کی جانب سے محکمہ معدنیات سے متعلق سوالات کرنے کے حوالے سے محرک اور وزیرکی عدم موجودگی کے علاوہ محکمہ کی جانب سے جوابات نہ ملنے پر سپیکر نے رولنگ دی کہ آئندہ اجلاس میں ان سوالات کے جوابات کو اپ ڈیٹ کرکے پیش کیا جائے سردار عبدالرحمن کھیتران کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال پر مشیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 2015-16میں وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے سکریٹ فنڈز میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی البتہ گورنر بلوچستان کیلئے مالی سال2015-16میں 50لاکھ روپے مختص کیے گئے اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ سکریٹ پر کوئی قدغن نہیں یہ رقم کم اور بڑھ سکتی ہے خالد لانگو نے کہاکہ قانون کی رو سے گوونر بلوچستان کے سکریٹ بجٹ پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی عبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ سابق نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی کے دور میں 14کروڑ روپے سابق آئی جی پولیس مشتاق سیکھرا نے جس انداز میں حاصل کیے وہ کمال کی بات ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسمبلی سے درخواست کی کہ جن محکموں نے سوالات کے جواب نہیں دئیے ان کی لسٹ مجھے دی جائے تاکہ میں اس سے پوچھ لوں ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ جو ممبران سوالات کرکے ایوان میں نہیں آتے ان کو ایوان میں آنے کا بابند بنایا جائے اس موقع پر سپیکر نے ایوان میں گزشتہ اجلاس کے دوران خنائی مسلم باغ کا تا ہرنائی اور کچ ہرنائی تا زیارت سنجاؤی سڑکوں کو این ایچ اے کے حوالے کرنے سے متعلق لیاقت آغا کی قرارداد ایوان میں پیش کی جس پر اپوزیشن رکن عبدالرحمن کھیتران‘زمرک اچکزئی نے کہاکہ یہ قرارداد گزشتہ اجلاس میں پیش ہوئی تھی جس پر نواب ثناء اللہ زہری نے کہا تھا کہ بحث کے بعد اس قرارداد کو منظوری کیلئے ایوان میں پیش کی جائے لہٰذا اخلاقی طور پر فرض بنتا ہے کہ سنےئر صوبائی وزیر جو مواصلات کے وزیر بھی ہیں سے مشورہ کرکے ایوان میں پیش کیا جائے عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ قرارداد پاس کرنے میں کوئی حرج نہیں اسے اسی شکل میں منظور کیا جائے سردار عبدالرحمن کھیتران دوسری قرارداد لائے ہم اسے بھی منظور کرینگے وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی نے کہاکہ قرارداد بہت اہم ہے لہٰذا اس کو پاس بھی کیا جائے تو حرج نہیں سپیکر نے قرارداد کو اگلے اجلاس تک موخر کردیا جس کے ایوان نے منظوری دیدی دوسری قرارداد آغا لیاقت نے پیش کرتے ہوئے کہاکہ ایران اور پاکستان کے مابین درآمد اور برآمد پالیسی برابری کی بنیاد پر وضع کرتے ہوئے ایران کی جانب سے (اجازت) اور ہیلتھ ایکسپورٹ سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی شرائط کویکسر ختم کیا جائے نیز بزنس ویزا فیس کی اجراء کیلئے یکساں فیس مقرر کی جائے جس کے علاوہ پاکستانی چاول کے نمونے کی جانچ تہران کی بجائے زاہدان میں کی جائے تاکہ ہمارے ملک خصوصاً بلوچستان کے تاجروں کی آزادانہ تجارت کی فروغ میں ہرممکن مدد حاصل ہوسکے آغا لیاقت نے کہاکہ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ایران کے ساتھ سب سے بڑی تجارت زمینی لائن کے ذریعہ ہورہی ہے کچھ سرمایہ کاروں نے رائس ایکسپورٹ کارپوریشن کا دفتر کوئٹہ میں قائم کیاہے چاول ی تجارت کے ذریعے صوبے کو اس وقت زیادہ آمدن ہوتا ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ تجارت کو ختم کرکے بلوچستان میں قائم ملوں کو بند کرانا چاہتے ہیں وفاقی سطح پر ہمارے تاجروں کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی ایران ہمارے تاجروں پر شرائط لاگوکرکے تاجروں کو کاروبار سے بیزار کیا جارہا ہے جبکہ ہمارے حکومت میں ایران کی جانب سے آنے والے پھل ‘سبزیاں اور دیگر اشیاء پر کھلی چھوٹ دے رکھا ہے انہوں نے کہاکہ جب ہمارے ٹرک ایران داخل ہوتے ہیں تو ان سے ڈیزل کی سبسڈی کے علاوہ ہر دس کلو میٹرپر ایک ڈالر چارج کرتے ہیں اس طرح ہماری چاول پر فی کلو 80روپے ٹیکس لگاتے ہیں انہوں نے کہاکہ ایران سے سیب‘انگور اور بسکٹ آتے ہیں ان پر ٹیکس لگایا جائے شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ایران ہماری مارکیٹ پر بہت زیادہ اثر انداز ہورہا ہے ایران میں زمینداروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جاتی ہے اس کے مقابلے میں ہمارے زمینداروں کو کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کیونکہ وہاں سے جو چیزیں آتی ہے وہ سستی ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ بارڈر پر تجارت میں ہر چیز کو مساوی رکھاجاتا ہے اگر ہمارے اجناس پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے تو ایرانی مال پر بھی ٹیکس وصول کیا جائے اس سلسلے میں وفاق کے ساتھ بات کرکے انہیں اس بات پر مجبور کیا جائے ثمینہ خان نے کہاکہ تاجروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کی ضرورت ہے ایران سے جو اشیاء آتی ہے ان پر ٹیکس لگائی جائے اور جن چیزوں کی ہمیں ضرورت نہیں ان کو نہ منگوایا جائے خالد لانگو نے کہاکہ اس طرح چاول پر ایرانی حکام نے ڈیوٹی لگائی ہے اسی طرح ہمیں بھی ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے پھل اور سبزیاں کو اہمیت نہیں دی جاتی عین سیزن پر سیب ‘انگور ‘آلو‘پیاز منگوا کر ہمارے زمینداروں اور زراعت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے جان جمالی نے کہاکہ چاول سمیت دیگر اشیاء کی تجارت کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ایران سے تمام چیزیں آرہی ہے ہمارے70فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے ان کی مفادات کی تحفظ کیلئے موثر قانون سازی کی جائے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ایران سے آنے والی چیزوں خاص طور پر پھلوں اور اجناس کی قیمتیں ہمارے ملک کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کی وجہ سے ہمارے کاشتکاروں اور زمینداروں کو مشکلات کا سامنا ہے اس قرارداد کو صرف چاول تک محدود نہ کیا جائے بلکہ تمام چیزیں اس میں شامل کی جائے نصراللہ زیرے نے کہاکہ ہر سال سیزن میں ایران سے سیب اور انگور کو منگوا کر ہمارے زراعت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے زمیندار وں نے اس حوالے سے احتجاج بھی کیا ہے لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا ہے عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ ہمارے صوبے کو پھل‘انگور‘آلو‘پیاز جیسے اشیاء باہر سے لانے کی ضرورت نہیں زمینداروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے دنیا میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیاگیا ہے بلکہ حکومت زمینداروں کو بڑے مراعات دے رہے ہیں ہمارے زمیندار مشکلات کا شکار ہے سینکڑوں فٹ سے پانی نکالتے ہیں بجلی کی کمی ہے اس دوران اگر تھوڑی بہت فصل ہوجاتی ہے تو ہمارے کچھ لوگ عین سیزن پر ایران سے پھل اور سبزیاں لے آتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے پھلوں اور سبزیوں کی مارکیٹ کو نقصان پہنچتا ہے انہوں نے کہاکہ بحیثیت حکومت ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم زمینداروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیں انہوں نے کہاکہ جو مسئلہ ایران کے ساتھ ہے وہ وفاق کے ساتھ اٹھائینگے ایرانی اشیاء پر ٹیکس لگائی جائے انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں یکسانیت کی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اتھاروریں ترمیم کے تحت ہم بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاہدات کرسکتے ہیں انہوں نے کہاکہ عین سیزن کے موقع پر جب پھل اور سبزیاں منگوائی جاتی ہے تو ہمارے زمیندار احتجاج کرتے ہیں انہوں نے کئی بار روڈ بھی بلاک کیا ویسے اگر دیکھا جائے ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کے حوالے سے اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں بعض لوگ کچھ بیوروکریٹ کو خوش کرنے کے بعد غیر قانونی طور پر اشیاء کو یہاں لاکر زراعت کو نقصان پہنچایا جارہا ہے صوبائی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارے زرعی شعبے سے وابستہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ہمیں انہیں سہولیات فراہم کرنی ہے ہمسایہ ملک کے مقابلے میں ہمارے زمینداروں کی اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے اجلاس میں قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی ۔