اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے مقدمے میں وفاق اور صوبوں سے جنوری 2016 تک رپورٹس طلب کر لی ہیں ۔چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ہمارا اتنا بڑا ملک ہے مگر اب بھی قرضے لے کر چلایا جا رہا ہے ۔ لگتا ہے حکومتوں کی جانب سے ماحول کے حوالے سے کئے گئے وعدے نہ پورے ہوئے اور نہ ہوں گے ۔ کیا پنجاب میں قانونی پابندی ہے کہ صرف ایک ماحولیاتی ٹریبونل کام کرے ۔ خراب حکمرانی سے خود کو لاتعلق رکھ کر عوام کو آپ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ سندھ میں 1992 کے ترقیاتی منصوبے تاحال کاغذوں کی حد تک ہیں ان پر اب بھی کام شروع نہیں ہوا ۔ کوئٹہ ماضی کی طرح آج بھی بے رونوق اور بنجر ہے ۔ حکومت سندھ لکھ کر دے دے کہ اسے عدالت سے رہنمائی چاہئے ۔ آخر کب تک خراب حکومتوں کے مقدمات سنتے رہیں ۔ گھوسٹ ملازمین کی میونسپل اداروں میں بھرمار ہے ۔کام کی بجائے صرف خوبصورت نقشے بنائے گئے ہیں جبکہ سندھ کے بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی آلودگی کے باوجود وہاں کے لوگ زندہ کیسے ہیں ؟ جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکس سے چلنے والی حکومتیں عوامی فلاح کے معاملات میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہیں ۔ اب سپریم کورٹ کے جج جا کر صفائی کے معاملات کی نگرانی کریں ۔کام کرنے والوں کی فوج ظفر موج موجود ہے مگر صفائی کون کرے کیا فرشتے کریں گے ؟حکومتیں کچھ کرنے کی بجائے آنکھیں بند کر لیتی ہیں انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو صوبائی حکومتوں نے اپنی اپنی رپورٹ پیش کیں ۔ خالد شہریار نے سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ پیش کی اور کہا کہ کراچی میں بہت سی صنعتوں کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں ۔ تمام تر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی مانٹرنگ کر رہے ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 2003 کا کیس ہے اس پر ورک ماشااللہ بہت عمدہ ہے ۔ 12 سال بھی آپ کو نوٹس جاری رہے ہیں اتنی موٹی رپورٹ اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ ہم کچھ نہیں کر رہے ۔ اصل میں ماحولیاتی آلودگی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ جب تک حکومت کی مرضی نہ ہو وہ کچھ نہیں کرتی ۔ جتنی بڑی مصیبیتں آئے، آلودگی پھیلے حکومت آنکھ بند کر لیتی ہے یہ بتائیں کہ اب تک ماحول آلودہ کرنے والے کتنے لوگوں کو سزا دی گئی ۔ یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ آپ کراچی میں نہیں رہتے ۔صبح کے وقت کراچی میں دو چار سو کچرے کے ڈھیروں میں آگ لگی ہوتی ہے اور اس کا زہریلا دھواں پھیل رہا ہوتا ہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ان کاموں میں دلچسپی کون لے ۔ صفائی کے کام کرنے والے افراد کی فوج طفر موج تو موجود ہے مگر صفائی کرے کون؟کیا اب صفائی بھی فرشتے کریں گے ۔ عدالت ہر بار معاملات میں پڑھے تو حکومت کوئی آرڈر جاری کرے گی ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کراچی جانا ہوا تو ایک جگہ گئے وہ جگہ اتنی بدبودار تھی کہ میں کھڑا نہ رہ سکا ۔ ملازمین کو تنخواہیں مل رہی ہیں تو صفائی کیوں نہیں ہوتی ۔ تو کیا سپریم کورٹ کے جج اس کام کی نگرانی کریں۔ آپ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ان کے ٹیکس سے حکومت تو کر رہے ہیں مگر ان کو اچھا ماحول دینے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی تو چھوڑیں تاحار ، مٹیاری ، ٹنڈو آدم خان میں یہ سمجھنا دشوار ہے کہ آخر یہ لوگ زندہ کیسے ہیں؟ آپ کے نقشے بڑے خوبصورت ہیں مگر کوئی کام بھی کر رہے ہیں ۔ اب میونسپل اداروں میں گھوسٹ ملازمین بھی بہت ہو گئے ہیں ۔ کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر کے صرف حکومت کے خراب گورننس کے معاملے دیکھے اور سنے ۔ آخر کب تک حکومت کی خراب کارکردگی اور حکومت کے خراب کیس سنتے رہیں؟ کیا ہم بری حکمرانی سے اپنے آپ کو لاتعلق کر لیں۔ حکومت سندھ لکھ کر دے دیں کہ انہیں عدالت سے کوئی راہنمائی نہیں چاہئے وہ ایسے ہی ٹھیک ہیں ۔سندھ میں ترقیاتی منصوبوں میں 1992 کے منصوبے پر اب تک کام شروع نہیں ہو سکا یہ صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہے کیا ہم خراب حکمرانی سے خود کو لاتعلق کر کے عوام کو آپ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ہم ایسا نہیں کریں گے ۔ اس دوران حکومت پنجاب نے رپورٹ پیش کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے 36 مجسٹریٹ مقرر کئیے ہیں تاکہ ماحول آلودہ کرنے والوں کو سزا دی جا سکے ۔ پورے پنجاب میں ایک ماحولیاتی ٹریبونل کام کر رہا ہے اس پر عدالت نے کہا کہ ہم پنجاب سے پیشر فت رپورٹ چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی قانونی پابندی ہے کہ ایک ہی ماحولیاتی ٹریبونل کام کرے ۔ چلو پنجاب کچھ کام کر رہا ہے تو اچھی بات ہے ۔ 13 کروڑ 98 لاکھ روپے آلودگی کے پروگراموں کے لئے رکھے گئے ہیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ راوی کے پل پر سے ناک پر کپڑا رکھے بغیر گزرا نہیں جا سکتا۔ راوی کی صفائی کے لئے کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ کیوں نہیں لگایا جاتا ۔ہم مغرب کی صفائی کے حوالے سے معاملات کو کیوں نہیں اپناتے۔ ہم کیوں نہیں کہتے کہ ہمارا پانی صاف ہو ۔ چند کروڑ میں پانی صاف کرنے کے پلانٹ آ جاتے ہیں مگر سمجھ نہیں آتی ہم اپنے ماحول کو صاف کیوں نہیں کرنا چاہتے ۔ بلوچستان کی طرف ایاز سواتی نے بتایا کہ کوئٹہ شہر کے دھواں چھوڑنے والے رکشے بند کر دیئے ہیں اب سی این جی پر چل رہے ہیں پانی کی صفائی ،گندگی کو ضائع کرنے کے پلانٹس لگائے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں 79 اینٹوں کے بھٹے شہر سے باہر بھیجے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ کا وہی بنجر منظر ہے جو پہلے تھا ۔ بتائیں کہ آپ نے کتنے درخت لگائے ہیں؟ میں نے تو کوئٹہ میں جھاڑیاں تک نہیں دیکھیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب جھاڑیاں نہیں ہیں تو درخت کا خیال ہی دور ہے ۔کے پی کے حکومت نے بتایا کہ بلین درخت سونامی کے نام سے پروجیکٹ بنایا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سونامی کا مطلب تو تباہی ہے ۔ یہ درختوں کی سونامی سے درختوں کی تباہی لانا چاہتے ہیں اس پر کے پی کے نمائندے وقار بلور نے بتایا کہ پورے شہر میں ہر نالے کے ساتھ سیوریج کی لائنیں ڈال رہے ہیں۔ پورے پشاور کے سیوریج پانی کو ہم دور پھینکیں گے اور یہ دریاؤں میں جائے گا ۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آخر آپ دریا کو گندا کرنے کا کام کر رہے ہیں آخر آپ کب سیکھیں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ یورپی ممالک میں نل کا پانی پیا جاتا ہے میں خود بھی حیدر آباد کے نل کا پانی پیتا رہا ہوں ۔ مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے جو معاملات کو دیکھے اور اپنی ماہرانہ رائے دے ۔ کے پی کے کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ پشاور میں تین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کام کر رہے ہیں اس کے لئے ایشین بنک سے قرضہ لیا گیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا بڑا ملک ہے جو اب بھی ہم قرضے لے کر چلا رہے ہیں ۔کیا ان پلانٹس کو چلانے کی ذمہ داری ایشین بنک کی ہے ۔ آپ کے کام کرنے سے زیادہ لفظوں پر مشتمل ہیں۔مہربانی کرکے اپنے اپنے کام ذمہ داری سے کریں تاکہ غریب عوام کا بھلا ہو سکے ۔ لگتا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے ماحول کے حوالے سے کئے گئے وعدے نہ پورے ہوئے اور نہ ہوں گے ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری 2016 تک ملتوی کر دی ۔