|

وقتِ اشاعت :   November 26 – 2015

ماسکو:  روس کے وزیرخارجہ لارؤف نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ترکی کے خلاف جنگ نہیں کرے گا اس کے باوجود کہ ترکی نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اشتعال انگیزی کی ہے۔ ریاستی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے روسی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ وہ یہ ماننے کوتیارنہیں ہیں کہ منصوبہ بندی کے تحت روسی جنگی جہاز پر حملہ نہیں ہوا۔ لارؤف نے اپنا مجوزہ دورہ انقرہ منسوخ کردیا اور کہا کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہے ہیں کہ ترکی کے ساتھ تمام تعلقات پر نظرثانی کی جائے کیونکہ انقرہ کا حملہ جارحانہ اور بدنیتی پر مبنی تھا۔ ہمارا طرز عمل ترکی کی طرف تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ہماری طرف سے ترکی کے رہنماؤں سے سوالات ہیں۔ ترکی نے روسی جنگی طیارہ مارگرایا اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ترکی کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس سے ناراض ہوکر روسی صدر پیوٹن نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا گیا۔ دومیں سے ایک پائلٹ کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے تباہ ہونے والے طیارے سے کود گیاتھا۔ معاون پائلٹ نے روسی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو ترکی کی طرف سے کوئی وارننگ نہیں دی گئی ترکی کے جیٹ طیاروں نے بغیر وراننگ دیئے میزائل داغے، ریڈیوپر بھی پیغامات کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ ترکی کے جہازوں سے کوئی اور کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا جبکہ روسی جہاز شام کے فضائی حدود میں تھا۔ترکی نے اپنا دفاع کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ روسی جنگی جہاز نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر اردگان نے کہا ہے کہ کے دفاع اور سیکیورٹی کے لیے یہ ضروری تھا۔ ترکی کشیدگی نہیں چاہتا اور ہمیشہ سفارت کاری اور پُرامن طریقہ کار اپناتا ہے۔ ہم اس کو برداشت نہیں کرتے کہ کوئی ہماری سرحدوں یا فضائی حدود کی خلاف ورزی کرے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں کرنی چاہیے۔ ہم کشیدگی کو پھیلانا نہیں چاہتے۔ ہم صرف اپنا دفاع کررہے ہیں۔ ترکی اور روس آج کل الفاظ کی جنگ لڑرہے ہیں اور اس طرح سے شام کے بحران کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ روس کے وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے ساتھ تمام طرح کے فوجی رابطے ختم کردیئے گئے اور روس شام میں کروزمیزائل کا نظام قائم کردیا ہے۔ لارؤف نے اعلان کیا کہ روس کا کوئی ہلکار ترکی کا دورہ نہیں کرے گا نہ ہی ترکی کے کسی وفد کا ماسکو میں استقبال کیا جائے گا۔ دریں اثناء ترکی سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور سفارت خانے پر انڈے پھینکے گئے۔ پیوٹن نے ترکی کی مذمت کی کہ پہلے اس نے نیٹو کو اطلاعات فراہم کئے اور روس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ترکی اس بات سے سخت ناراض ہے کہ روس نے ترکی فوج پر ہوائی حملے کئے جبکہ روس کا مؤقف ہے کہ اس خطے میں داعش اور دوسرے جنگجو بھی موجود ہیں صرف ترکمان نہیں ہیں،دوسری جانب، ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوگلو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اپنی سرحدوں کی کسی خلاف ورزی پر کارروائی ان کی ذمہ داری ہے۔