انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اگر ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کا، داعش سے تیل کی تجارت کا الزام ثابت ہوجائے اور وہ صدارت سے استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ رجب طرب اردوان کا ماحولیاتی تبدیلی کی حوالے سے پیرس میں ہونے والی کانفرنس کے دوران سائیڈ لائن مذاکرات میں کہنا تھا کہ اگر ان کے ملک پر روسی صدر کا لگایا ہوا الزام ثابت ہوجاتا ہے، تو ملک کا وقار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دوں۔
انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے ملک پر اس طرح کا کوئی الزام لگایا جائے تو کیا وہ اپنے عہدے پر رہنا گوارا کریں گے۔
واضح رہے کہ روسی صدر نے ترکی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے روسی جہاز دہشت گرد تنظیم داعش سے اہنی تیل کی تجارت کو تحفظ دینے کے لیے گرایا، جسے ترکی نے یکسر مسترد کردیا تھا۔
رجب طیب اردوان نے ولادیمیر پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جذباتی ردعمل دینے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی قانونی طریقے سے تیل اور گیس دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے، اور ہم پر اس طرح کے الزامات سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ تقریباً ایک ہفتہ قبل ترکی نے مبینہ طور پر اپنی حدود میں داخل ہونے پر روسی لڑاکا طیارے SU-24 کو فضا میں ہی تباہ کردیا تھا۔
لڑاکا طیارہ گرائے جانے پر روس کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور روسی صدر نے اسے’ پیٹھ میں چھڑا گھونپنے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خبردار کرتے ہوئے ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
بعد ازاں روس نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہوئے اس کے شہریوں کے لیے فری ویزا سروس ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ 50 سال کے بعد پہلی بار ہوا تھا جب کسی نیٹو رکن ملک نے روس کا جنگی طیارہ گرایا۔