کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنماؤں نے کہاہے کہ پشتونوں کی سرزمین پر ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز ہوچکا ہے اے این پی کے کارکن پشتون وطن کو بچانے کیلئے قومی جذبے کے ساتھ میدان عمل میں نکلنے کیلئے تیار رہے، پشتون قوم کو مزید ڈرامے بازی کے تقاریر اور شعبدہ بازی کی سیاست سے نہیں ورغلایا جاسکتاعزیز ماما کے نقش قدم پر چل کر پشتون افغان وطن کو مزید تقسیم کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنادیں گے ان خیالات کا اظہار اے این پی کے زیر اہتمام معروف پشتون قوم پرست رہنماء و ادیب عزیز اللہ ماما کے چھٹی برسی کے موقع پر سائنس کالج کے ظریف شہید آدیٹوریم میں منعقدہ جلسے سے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، بزرگ رہنما ء ڈاکٹر عنایت اللہ خان، صوبائی پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی، صوبائی جنرل سیکرٹری حاجی نظام الدین کاکڑ،مرکزی جوائنٹ سیکرٹری عبدالمالک پانیزئی ، ڈاکٹر عبداللہ خان، ملک ابراہیم کاسی اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات مابت کاکا نے خطاب کرتے ہوئے کیامقررین نے عزیز ماما کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عزیز ماما جیسے شخصیات نے سماج میں تبدیلی اور قومی نجات کیلئے جو کوششیں کئیں وہ قابل تقلید ہے وہ ایک انقلابی، صاحب عمل اور باعمل سیاسی رہنماء تھے انہوں نے ہمیشہ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دی وہ پشتون نوجوانوں کے لئے ایک آئیڈیل رہنماء ہے اور یہ امر خوش آئند ہے کہ آج ہمارے نوجوان ان اکابرین کی یاد میں ان کے دن مناتے ہیں عزیز ماما نے قومی نجات کے حوالے سے لروبر پشتون افغان وطن میں جو نظریاتی تحریک و زنجیر بنائی تھی اور ڈیورنڈ لائن کے تصور کو ہی ختم کردیا تھا آج عزیز ماما کے آبائی علاقے سے ملحق ڈیورنڈ لائن کے آر پار پشتون قوم کو تقسیم کرنے کیلئے بعض مفاد پرست عناصر نے چند ٹکوں کی خاطر وہاں خندقیں کھودلی ہیں مگر ہم آج یہ عہد کرتے ہیں کہ عزیز ماما کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے پشتون افغان وطن کو تقسیم کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنادیں گے اور چند ٹکوں کی خاطر کھودنے والی خندقیں ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے انہوں نے کہا کہ فخر افغان باچاخان اور اور ان کے پیروکاروں اور اے این پی کا پشتون قوم کیلئے جدوجہد اور قربانیاں سب کے سامنے ہیں ہم اور ہمارے اکابرین نے ایک دن بھی پشتون قوم کے ساتھ بے وفائی اور خیانت نہیں کی برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں بھی ہمارے ہی اکابرین سرخرو ہوئے اور آج بھی پشتون وطن کی دفاع اور بقا ء کی جنگ میں ہمارے قائد اسفند یارولی خان اور اے این پی کے سرخ پوش کارکن سرخرو ہیں پشتون قوم ووطن کیلئے ہر جدوجہد میں باچاخان کے پیر وکاروں اور اے این پی کے کارکنوں نے جو قربانیاں دی ہیں اس کوئی اور جماعت سوچ بھی نہیں سکتا مقررین نے کہا کہ پشتون قوم کو مزید ڈرامے بازی کے تقاریر اور شعبدہ بازی کی سیاست سے نہیں ورغلایا جاسکتا ۔ پشتون قوم ایسے شعبدہ بازوں اور ڈرامے بازوں کے قول وفعل سے اچھی طرح آگا ہ ہوچکی ہے یہاں پر پشتونوں کو بار بار اسلام اور قوم پرستی کے نام پر دھوکے دئیے گئے مگر آج وہی مذہبی قوتیں خود آپس میں اس نقطے پر لڑرہے ہیں اور ایک دوسرے کو برابھلا کہہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں تیس سال سے اسلام کے نام پر جو جنگ پشتون افغان وطن پر لڑی گئی وہ بھی سب کو پتہ ہے کہ بندوق کس کا تھا پیسہ کس کا تھا اور کون اس جنگ میں مر رہے تھے کس کی گلیوں میں خون بہہ رہا تھا اور کون اس جنگ سے فائدے حاصل کر رہے تھے اسی طرح ایک نام نہاد قوم پرست جماعت نے لسانیت اور نفرت کے بیج بو دئیے تھے ۔ دوبرادر اقوام پشتون اور بلوچ کو اسٹیبلشمنٹ کے مذموم مقاصد کیلئے کی بار بار لڑایا گیا مگر آج وہی لوگ وفاق اور صوبے میں حکومتوں کا حصہ ہے قوم ان سے سوال کریں کہ آخر وہ پنجابی استعمار اور پشتون بلوچ برابری کی باتیں کہاں گئی کیا پشتونوں کو برابری مل گئی کیا چیف کمشنر صوبہ بحال ہو گیا ،پشتون کو اب سمجھنا پتہ ہوناچاہیے کہ کن مقاصد اور کس کے خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک جیسے مظلوم اقوام کے پلیٹ فارم کو توڑا گیا اور قوم سے مفادات حاصل کرنے کیلئے پونم کی صدارت حاصل کرنے بعد ان کی منہ پر تکیہ رکھ کر اس کی سانس نکالی گئی اور سب سے بڑھ کر پشتونخواہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس جیسے پشتون اتحاد کو پشتون افغان وطن دشمن جرنیل حمید گل کی سربراہی میں انتخابی بائیکاٹ الائنس میں شامل ہو کر روح پرور کردار ادا کیا جو اب تاریخ کا حصہ ہے ہم حقائق پر مبنی سیاست کو ویلکم کرتے ہیں اور حقائق پر مبنی سیاست کو پھر برداشت اور تسلیم بھی کرنا ہوگااور تاریخ مسخ نہیں کرنا چاہئے ۔ہم نے صرف اور صرف منہ پر ہاتھ اس لئے رکھا کہ قوم مزید انتشار کا شکار نہ ہوں ۔ان منفی عناصر نے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کر کے ذاتی خاندانی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی ۔ اور قوم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بھول گئے ہیں جعلی مینڈیٹ والے نہ وفاق اور نہ ہی صوبے میں پشتون قوم کے نمائندے بن سکتے ہیں پشتونوں کی قومی جماعت اے این پی اور قائد اسفند یارولی خان پشتونوں کا لیڈروملی سالار ہے آج اسلام آباد ور رائیونڈ کے حکمران بھی اقتصادی راہدری سمیت ہر ایشو پر اسفند یارولی خان ہی سے بات کر کے انہیں مطمئن کرنا چاہتے ہیں کابل واسلام آباد بھی ولی باغ چار سدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات کے حوالے سے ماضی مین بھی فخر افغان باچاخان اور خان عبدالولی خان نے کردار ادا کیا تھا۔ اور آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مختلف ا ایشوز پر جو گرما گرمی جاری ہے اس کو ٹھنڈا اور حل کرنے میں بھی اسفند یارولی خان کا کردار اہم ہوگا۔ لہذا پشتون قوم کو بھی چاہیے کہ وہ کردار اور قربانی کی بنیاد پر محاسبہ کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ کون پشتون قوم کا وفادار اور حقیقی لیڈر وجماعت ہے اور کس نے قوم کو جذباتی نعروں کے ذریعے دھوکہ دے کر قومی مفادات کا سودا کرکے خاموش ہوگئے ہیں اور اس بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ جلسوں میں قوم کے سامنے بولتے کچھ ہیں اور اگلے دن اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے اخبارات میں کچھ اور چھاپتے ہیں اور اپنے موقف سے ہٹ جاتے ہیں جس پر ان کے اپنے ہی کارکن تذبذب کا شکار ہے انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ روز ایک برسی کے جلسے میں خود کو قد آور سمجھنے والوں نے سرکاری خرچے پر لوگوں کو جمع کر کے جلسے میں ہمارے اکابرین کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ ان کی اصل ذینت کی عکاسی کرتا ہے ۔ کم سے کم ہمارے اکابرین نے ہمیں اس طر ح زبان کا استعمال نہیں سکھایا ہے ہم نے اپنے اکابرین سے یہ سیکھاہے کہ ہر بات کا جواب مد لل طریقے سے جمہوری انداز اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر دیا جائے انہوں نے کہا کہ 1973کے آئین کوکبھی مقدس رشتہ اور کبھی قوم کے سودا کا انتقال قرار دینے والوں کی عقل و دانش پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ اگر یہ قوم کے سودا کا انتقال ہے تو پھر اسی انتقال کو مقدس قرار دے کر پارلیمنٹ میں کیوں لہراتے ہوں اسی انتقال کے تحت تو آپ آج صوبے میں گورنر اور حکومت کا حصہ ہوں ۔ اسی نتقال کے تحت آپ کے وزراء گورنر نے حلف اٹھایا ہے ۔ اسی 1973کے آئین ( بقول آپ کے انتقال) کی بدولت تو آپ کو سیاست کرنے کا موقع ملا ہے ۔ اور صوبے میں آپ ہی بلوچ وزیر اعلی سے ساتھ اہم حکومتی شراکت دار ہوں۔مقررین نے کہا کہ خطے میں جو حالات ہیں اور جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس کے اثرات ایک بارپھر پشتون افغان وطن باالخصوص بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کے سرزمین پر مرتب ہونگے اور یہاں پر ایک نئی گریٹ گیم کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے جس میں امریکہ ، روس ، چین، برطانیہ، سعودی عرب اور ایران براہ راست اس گیم کا حصہ ہیں لہذا اے این پی کے کارکنوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھیں اور اس نئی گریٹ گیم میں پشتون وطن کو تباہی وبربادی سے بچانے میں اپنا قومی کردار ادا کریں اور ملی سالار قائد اسفندیار ولی خان کے ہر حکم پر میدان عمل میں نکلنے کیلئے قومی جذبے کے ساتھ تیار رہے۔