|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2015

کوئٹہ: بی ایس او آزاد کی مرکزی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کینیڈا میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کے دفتر کے سامنے بی ایس او آزاد کی جانب سے ہونے والے احتجاجی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیاں تشویشناک صورت حال اختیار کر چکی ہیں۔بلوچ فرزنداں کو بغیر مقدمات کے اغواء کرنا اور قانونی کاروائیوں کے بغیر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا روز کا معمول بن چکے ہیں۔بلوچستان میں فورسز اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے صحافت کے تمام ذرائع کو عملاََ اپنے کنٹرول میں لے کر بلوچ آزادی کی تحریک کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔بانک کریمہ بلوچ نے انسانی حقوق کی نمائندوں، عالمی میڈیا سے اپیل کی کہ وہ اپنے نمائندے بلوچستان بیج کر سنگین صورت حال کا جائزہ لیں، انہوں نے دنیا بھر میں مقیم بلوچوں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری قتل عام کے خلاف آواز اُٹھائیں کیوں کہ پاکستان میں میڈیا سمیت تمام ادارے بلوچ عوام کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ مارچ کے شرکاء سے خطاب کے بعد بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ اور لطیف جوہر بلوچ نے ایمنسٹی انٹر نیشنل کے نمائندے ایلزبتھ ہنٹر سمیت دوسرے نمائندوں سے ملاقات میں انہیں بلوچستان کی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ عوام عالمی قوانین کی مطابق اپنی فطری حقِ آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، لیکن ریاست کی جانب سے بلوچ عوام سے ان کے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔مختلف تنظیموں کی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے 20ہزار سے زائد نوجوان و بزرگ فورسز کے ہاتھوں اغواء ہو چکے ہیں۔ اغواء ہونے والے 2000سے زائد سیاسی کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں مختلف علاقوں کے ویرانوں ، سڑکوں و دیگر مقامات سے ملی ہیں۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کے زمہ دار اداروں کی عدم توجہی کے باعث ریاست اس طرح کی کاروائیوں کو آزادانہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہے، نومبر کے شروع میں بولان سے ایک فوجی کاروائی کے دوران ایک عمر رسیدہ خاتون کو شہید کرکے فورسز نے درجنوں خواتین و بچوں کو اغواء کیا جو تاحال ان کی تحویل میں ہیں۔بلوچستان کے علاقے بولان سے درجنوں خواتین کا اغواء ریاستی جرائم میں پریشان کن حد تک اضافے کا ثبوت ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بلوچستان میں ریاستی طاقت کئی مرتبہ نہتے خواتین پر استعمال ہوئی ہے۔ رواں برس آواران، جھاؤ ، کوہلو و ڈیرہ بگٹی کے علاقوں سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں خواتین کو فورسز نے فضائی و زمینی کاروائیوں میں نشانہ بنا کر قتل و زخمی کیا۔ جبکہ آزادی کی تحریک میں خواتین کی شمولیت کو محدود کرنے کے لئے فورسز اپنے زیرِ پروش پلنے والے مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کرکے خواتین کی اسکولوں کو جلانے اور ان کے چہروں پر تیزاب پاشی جیسے غیر انسانی اعمال کا مرتکب ہورہی ہے۔ بلوچستان بھر میں میڈیا نمائندوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور لکھاریوں کو مسلسل ریاست کی جانب سے دھمکیوں اور خطرات کا سامنا ہے اس کی وجہ سے بلوچستان میں ہونے والی وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کی خبریں انتہائی محدود صورت میں سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ کریمہ بلوچ نے بلوچستان سے فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں سمیت ہزاروں نوجوان، بزرگوں و خواتین کے بارے میں انسانی حقوق کے نمائندوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ خالص انسانی اور فوری حل طلب مسئلہ ہے۔ کیوں کہ ہزاروں کی تعداد میں سالوں سے لاپتہ فرزندان کے رشتہ دار شدید زہنی اذیت کا شکار ہیں۔ بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو گزشتہ سال مجھ سمیت تنظیم کے دیگر زمہ داروں کے سامنے فورسز نے کوئٹہ سے اغواء کیا جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔ ہماری تنظیم کے سابقہ سینئر وائس چئیرمین زاکر مجید بلوچ 2009کی جون کو اغواء ہو چکے ہیں جو کہ اب تک لاپتہ ہیں۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ ہمارے پر امن احتجاج کے تمام ذرائع کو استعمال میں لانے کے باوجود نہ صرف ریاست اس طرح کی جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے، بلکہ روز بہ روز اس طرح کی کاروائیوں میں شدت لایا جا رہا ہے۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے زاہد بلوچ کی بازیابی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی یقین دہائی کرائی تھی، ہم امید کرتے ہیں کہ ایک زمہ دار ادارے کی حیثیت سے ایمنسٹی اس حوالے سے عملی اقدام اُٹھائے گی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے نمائندوں نے بلوچستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں و خواتین کے مسئلے سمیت انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ہر فورم پر آواز اُٹھانے کی جدوجہد کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہر انسان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے اس حق کو کوئی قانون ان سے چھین نہیں سکتا۔ بلوچستان سے بغیر مقدمات لوگوں کی گرفتاری اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی انسانی حقوق کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے کے نمائندوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔