کوئٹہ : آل بلوچستان ٹرانسپورٹ ایکشن کمیٹی اور لوکل ایسوسی ایشن کی جانب سے نئے ٹائم ٹیبل 2006 ء ماڈل سے پرانی لوکل بسوں کی بندش اور سیکورٹی فورسز کے کانوائے کے نام پر گاڑیوں کو روکے جانے کیخلاف منگل کو صوبے کے مختلف علاقوں میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور مختلف شاہراہوں کو ٹرانسپورٹرز نے بند کئے رکھا احتجاج کے دوران مختلف روٹس کی لوکل بسیں بھی نہ چل سکیں تاہم ان کی ہڑتال رکشہ والوں کیلئے رحمت بن گئی تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ٹرانسپورٹ ایکشن کمیٹی اور لوکل ایسوسی ایشن کی جانب سے پہیہ جام ہڑتال کی گئی جس کے دوران ٹرانسپورٹروں نے مختلف شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے بند کئے رکھا ٹرانسپورٹروں کا مطالبہ ہے کہ کانوائے کے نام پر ان کی بسوں اور گاڑیوں کو گھنٹوں تک روکنا سراسر ظلم ہے جبکہ وہ نئے ٹائم ٹیبل اور 2006ء ماڈل تک بسوں کی بندش کو بھی تسلیم نہیں کرتے اس طرح کے اعلانات اور احکامات کا مقصد ٹرانسپورٹرز کو محض پریشان کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں جسے ہم تسلیم نہیں کرتے اس سلسلے میں احتجاجی شیڈول کا ٹرانسپورٹرز کی جانب سے پہلے ہی اعلان کیا جاچکا ہے منگل کے روز پہیہ جام ہڑتال کی گئی تاہم صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی مختلف شاہراہوں پر بسوں کے علاوہ ہر طرح کی ٹریفک بحال نظر آئی لوکل بسوں کے نہ چلنے کے باعث لوکل رکشوں کا سہارا تاہم انہیں لوکل کے 15 روپے کرائے کی بجائے 30 روپے ادا کرنے پڑے اس موقع پر لوگوں کا کہنا تھا کہ لوکل بس مالکان کی جانب ہڑتال سمجھ سے بالاتر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ گھٹارا بسیں عوام اور ماحول دونوں کیلئے وبال جان بنی ہوئی ہیں نہ صرف ان کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ موسمی اثرات سے بھی وہ محفوظ نہیں رہ پاتے کوئٹہ کے مختلف روٹس پر چلنے والی لوکل بسیں انتہائی خستہ حال ہوتی ہیں اور ان میں صفائی ستھرائی کی بھی کوئی چیز نہیں ہوتی جبکہ لوکل بس مالکان سکول کے معصوم بچوں سمیت شہریوں کو بھی چھتوں پر سواریوں کی پابندی کے باوجود بھی انہیں بٹھا کر سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں عوامی حلقوں نے کوئٹہ کراچی اور دیگر روٹس پر چلنے والی بس مالکان کیساتھ لوکل بس مالکان کی ہڑتال کو بلا جواز قرار دیا اور کہاکہ لوکل بسوں کی حالت بہتر ہونی چاہیے 2006ء ماڈل پرانی بسوں پر پابندی عائد کئے جانے کا فیصلہ اگرچہ عجیب ہے تاہم اس سے عوام کو ریلیف ملنے کے بھی امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا دوسری جانب ٹرانسپورٹرز کا موقف ہے کہ ان کا کاروبار کانوائے کے نام پر گھنٹوں تک بسوں کو کھڑا کرنے اور 2006ء ماڈل تک بسیں نہ چلانے کا فیصلہ ان کے کاروبار کو ختم کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں اگر 2006ء ماڈل سے نئی بسیں چلانی تھیں تو پھر ٹرانسپورٹ اتھارٹیز نے لوکل بس مالکان سے پرانی بسوں کی مرمت کیوں کرائی ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت لوکل بس مالکان اور دیگر کو کسی بھی قسم کی سہولت دینے میں ناکام ہے تو دوسری طرف مختلف قسم کی فرمائشیں ان کیلئے پریشانی کا باعث ہیں جس پر وہ عملدرآمد نہیں کرپارہے انہیں احتجاج کا شوق ہے اور نہ ہی وہ عوام کو پریشان کرنا چاہتے ہیں تاہم حکومتی اور ٹرانسپورٹ اتھارٹیز کی غلط پالیسیوں کے باعث وہ احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں ۔دریں اثناء آل بلوچستان ٹرانسپورٹرز کے نمائندوں میر حکمت علی لہڑی، حاجی دولت علی لہڑی، حاجی جمعہ خان بادینی، میر عبداللہ کرد کی کمشنر کوئٹہ میر قمبر دشتی سے کامیاب مذاکرات اور ان کی جانب سے جامع یقین دہانی کی بناء پر ٹرانسپورٹرز نے اپنی پہیہ جام ہڑتال کو مؤخر کردیا اور نیشنل ہائی ویز کو کھول دیا گیا جو مختلف جگہوں پر بند کی گئی تھیں یہ فیصلہ آل بلوچستان ٹرانسپورٹرز الائنس کے تمام روٹس کوئٹہ ٹو کراچی، تفتان، ماشکیل، خاران، چاغی، دالبندین، سبی، نصیرآباد، کشمور، حیدر آباد، لاڑکانہ، اوستہ محمد، سکھر، شہداد کوٹ، نواب شاہ، قلات، خضدار، مکران اور آل کوئٹہ سٹی لوکل روٹس اور دیگر روٹس کے نمائندوں نے اپنے مشترکہ اجلاس میں کیا اجلاس میں تمام ٹرانسپورٹرز نمائندوں نے گڈز ٹرانسپورٹرز، آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن اور خصوصاً عوام کا تعاون کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا یہاں پر ہم واضع کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا احتجاج دراصل عوام کے ہی مفاد میں کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں مسافروں کی تکالیف کم ہو اور ان کو دوران سفر بہتر سہولت فراہم کی جاسکے اس سلسلے میں کمشنر کوئٹہ میر قمبر دشتی کی یقین دہانی کی بناء پر مورخہ 9دسمبر 2015ء بروز بدھ تمام متعلقہ حکام اور ٹرانسپورٹرز نمائندوں کا ایک مشترکہ اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا جس کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔