|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2015

کوئٹہ: گوادر میں بلوچوں کو درپیش مسائل تحفظات و خدشات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس اہمیت کی حامل ہوگی پارٹی کے لئے بلوچوں کو درپیش مسائل کے حل اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے مردم شماری بلوچستان کے مخدوش حالات و لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین کی موجودگی میں ممکن نہیں نہ اسے قبول کریں گے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ بی این پی گوادر میں بلوچوں کو درپیش مسائل تحفظات ، خدشات کے حوالے سے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرے گی جس میں تمام جماعتوں کو مدعو کیا جائیگا یہ کانفرنس گوادر کے اختیارات بلوچستان کو دینے ، گوادر میں مقامی بلوچوں اور بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کی خاطر قانون سازی اور بلوچوں کو درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے کانفرنس کا منعقد کرنا اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اب تک جو پالیسیاں نظر آ رہی ہیں اس سے یہ امر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ایک بار پھر گوادر میگا پروجیکٹس میں مقامی بلوچوں اور بلوچستانیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی پالیسیاں روا رکھی جا رہی ہے بی این پی ترقی و خوشحالی کی ہر گز مخالف نہیں لیکن اپنے قومی مفادات قومی تشخص اور اپنی جغرافیہ کی حفاظت اور وہاں بلوچوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے جو خدشات ہیں انہیں دور کرنے کے حوالے سے اقدامات نہیں کئے جا رہے جس سے آئے روز بلوچ فرزندوں کی تشویش اور مصائب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آئینی طور پر گوادر پورٹ پر وہاں کے مقامی بلوچوں ، مکران و بلوچستان کے عوامی کو ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جاتے لیکن حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں بلوچوں کیلئے پاک چائنا اقتصادی راہداری روٹ ثانوی حیثیت رکھتی ہے حقیقی مسئلہ ہماری حق ملکیت حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے جو اب تک حکمرانوں نے نہیں کیا نہ حکمران اس مزاج اور موڈ میں دکھائی دیتے ہیں انہی خدشات و تحفظات کو دور کرنے کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم ملکی سطح پر جو حقیقی مسائل بلوچوں کو گوادر میں درپیش ہیں آئینی اور قانونی طور پر اپنے ساحل وسائل کا اختیارات بلوچستان کو ہونا چاہئے ہزاروں سالوں سے آباد بلوچوں کے آباؤاجداد کی زمینوں پر قبضہ گیری ، مقامی لوگوں کو اپنے ہی بحر بلوچ سے بے دخل کرنے ان کے بنیادی حقوق سے روگردانی جیسے اہمیت کے حامل مسائل کو اجاگر کیا جائیگا پارٹی کے سرپرست اعلی سردار عطاء اللہ خان مینگل نے جن خدشات و تحفظات کا اظہار بہت پہلے کیا تھا اب حکمران دانستہ طورپر ان خدشات و تحفظات کو دور کرنے کی بجائے معاملات کو حل کرنے سے روگردانی کر رہے ہیں پارٹی حقیقی ترقی و خوشحالی کی خواہاں ضرور ہے لیکن یہ ترقی و خوشحالی کے پروجیکٹ بلوچستان کے عوام کیلئے ہوں ہر سطح پر انہیں ترجیحی دینی چاہئے پورٹ کے مکمل اختیارات بلوچستان کے پاس ہوں ایسی قانونی سازی کی جائے جس سے دوسروں علاقوں سے آنے والوں سے گوادر کے مقامی بلوچ اقلیت میں نہ بدلیں گوادر میں انفراسٹرکچر جیسے مسائل اب بھی حل طلب ہیں بحر بلوچ کی جیو پولیٹیکل اہمیت کی حامل سرزمین وہاں کے غیور بلوچوں کو صاف پانی تک میسر نہیں اور نہ ہی بنیادی ضروریات کی فراہمی اب تک کی گئی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بنیادی مسائل کے حل کو ترجیح دی جاتی وہاں پر ٹیکنیکل ادارے قائم کئے جاتے اور مقامی بلوچ نوجوانوں کی تربیت دی جاتی میرین کالجز ، یونیورسٹیز ، دانش گاہ بنائے جاتے تاکہ عوام کو یہ باورا کرایا جاتا کہ اس ترقی و خوشحالی میں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا رہا بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم حکمرانوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ 2016ء میں ہونے والی مردم شماری بی این پی کو قابل قبول نہیں کیونکہ ایک جانب بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مخدوش حالات ہیں جھالاوان ، مکران ، کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، نصیر آباد ، بارکھان سمیت اکثریتی علاقوں س بلوچ فرزند ہجرت کر کے دیگر صوبوں اور علاقوں میں جا چکے ہیں بلوچستان میں جو بحرانی حالات ہیں ان علاقوں میں حالات ناساز ہونے کی وجہ سے مردم شماری کا عملہ وہاں پہنچ نہیں سے گا تو صاف شفاف مردم شماری کیسے ممکن ہو گی دوسری بڑی وجہ چالیس لاکھ غیر ملکیوں کا ہے چاہئے ان کے تعلق کسی بھی زبان ، قوم ، فرقے سے ہو ان کی موجودگی میں مردم شماری کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچوں کو اپنے ہی تاریخی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے پارٹی کا موقف واضح ہے کہ مردم شماری کا عمل جو شروع ہو چکا ہے مگر اسے قانونی تصور نہیں کیا جا سکتا 2011ء میں جو خانہ شماری کی گئی تو اس دور کے سیکرٹری شماریات نے بلوچستان میں غیر ملکی مہاجرین کے ناموں کو کہیں کہیں بار اندراج کرانے کے انکشاف کیا تھا جس کی وجہ سے بلوچستان کے پشتون علاقوں میں آبادی کا تناسب 400فیصد سے بڑھ چکی تھی اور بے ضابگطیوں کا بھی سیکرٹری شماریات نے ذکر کیا تھا انہوں نے کہا کہ اس ملک کے ارباب و اختیار پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دو اہم مسائل کو حل کئے بغیر مردم شماری بلوچ دشمنی پر مبنی اقدام تصور کیا جائیگا اور اس سے بلوچوں کی احساس محرومی اور محکومیت میں اضافہ ہوگا دنیا کا کوئی اصول اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کرائی جائے دوسری جانب ڈپٹی کمشنر کی اکثریتی اضلاع میں سیاسی بنیادوں پر تعیناتی کی گئی ہے اور اب بھی جانبداری کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ جعلی صوبائی حکومت کے ارباب و اختیار نے ان اہم سیٹوں پر براجمان اس لئے کیا کہ وہ اب مردم شماری کو مزید مشکوک بنانے کے عمل سے گریزاں نہیں اب بھی غیر ملکی مہاجرین کے شناختی کارڈز بنائے جا رہے ہیں اس کی کلیئرنس میں اب بھی مصروف عمل ہیں انہوں نے کہا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی بھی سست روی کاشکار ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نیب میں جو نادرا کے اہلکار گرفتار ہوئے انہیں سزائیں دی گئی وہ تمام حقائق سامنے لائے جاتے کہ کتنی بڑی تعداد میں جعلی کارڈز ، پاسپورٹس ، لوکلز کا اجراء کیا گیا لیکن اس حوالے سے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے انہوں نے کہا کہ بی این پی واضح طور پر کہنا چاہتی ہے کہ بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیر اور باعزت طریقے سے مہاجرین کی افغانستان انخلاء کئے بغیر مردم شماری ناقابل قبول ہے ۔