کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں گیس پریشر کی کمی اور دیگر بارے منیجنگ ڈائریکٹر سوئی سدرن گیس کمپنی سمیت دیگر متعلقہ حکام کو طلب کرلیا یہ حکم عدالت کے ججز نے سینئر قانون دان اور وکلاء رہنماء علی احمد کرد ایڈووکیٹ اور صابرہ اسلام ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست کی سماعت کے دوران دیا سماعت کے موقع پر درخواست گزاران سمیت سینئر وکلاء امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ سید نذیر آغا ایڈووکیٹ ظہور احمد بلوچ ایڈووکیٹ اور دیگر کے علاوہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے قائم مقام جنرل منیجر آغا محمد بلوچ بھی موجود تھے سماعت شروع ہوئی تو علی احمد کرد اور صابرہ اسلام ایڈووکیٹ کیساتھ دیگر وکلاء بھی رضا کارانہ طور پر پیش ہوئے اور انہوں نے درخواست گزاران کے موقف کی تائید کی نذیر آغا ایڈووکیٹ ظہور احمد بلوچ ایڈووکیٹ سمیت قیوم کاکڑ نے کیس میں فریق بننے کیلئے درخواستیں دیں جسے عدالت نے منظور کرلیا سماعت کے دوران علی احمد کرد اور صابرہ اسلام ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ماہ اکتوبر سے لیکر مارچ تک موسم انتہائی سرد ہوتا ہے کوئٹہ قلات زیارت اور قرب و جوار کے علاقوں اور اضلاع میں موسم سرما کے دوران 4 سے 5 شدید ترین سردی کی لہریں آتی ہیں جن میں سے ہر ایک کا دورانیہ 10 سے 12 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے سردی کی لہر کے دوران درجہ حرارت منفی 12 سے 13 درجے سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے ان حالات میں سوئی سدرن گیس کمپنی صارفین کو گیس کی سپلائی کرنے میں ناکام ہے اس کا نزلہ صرف اور صرف غریب عوام پر گرتا ہے جبکہ گیس کی کم یابی کا اثر وی آئی پی علاقوں میں نہیں پڑتا بغیر اجازت درخواست ضرورت یا قانونی جواز کے ہزاروں صارفین کے گھروں کے پرانے میٹرز اتار کر ایف 16 جیسے تیز میٹرز لگا دیئے گئے ہیں جس پر عدالت نے کمپنی حکام کو حکم دیا کہ وہ تا حکم ثانی نئے میٹرز نہ لگائیں جو صارفین نئے میٹرز لگانے کیلئے درخواست دیں صرف انہی کو ہی میٹرز لگا کر دیئے جائیں جس پر جنرل منیجر ایس ایس جی سی آغا محمد بلوچ نے کہاکہ کوئی بھی ٹیمپر میٹر بدلنے کیلئے درخواست نہیں دیتا جس پر چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی نے ان سے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ میٹر ٹیمپر کرنیوالے صارفین کیخلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں جو لوگ میٹر ٹیمپر کرتے ہیں ان کیخلاف مقدمات درج کئے جائیں اور گیس کی فراہمی بھی نہ کی جائے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ گیس جہاں سے نکلے سب سے پہلے آئین کے تحت اس پر مقامی لوگوں کا ہی حق ہوتا ہے جسے لوگوں کو ملنا چاہیے چیف جسٹس نے کمپنی کے قائم مقام جنرل منیجر آغا محمدبلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے کھلی کچہری کے موقع پر عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے مسائل حل ہونگے مگر صورتحال سب کے سامنے ہے جبکہ سینئر وکیل امان کنرانی نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت گیس پر سب سے پہلا حق بلوچستان کے ہی لوگوں کا ہے مگر یہاں گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کی بجائے اسے کہیں اور فروخت کیا جارہا ہے جسٹس ہاشم کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہم مسئلے کا حل چاہتے ہیں تاکہ عوام کو مشکلات نہ ہوں علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ بلوچستان میں گیس کی سپلائی کیلئے 190 ملین کیوبک فٹ گیس کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں اسے 50 ملین کیوبک فٹ گیس دی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ سندھ اور بلوچستان دونوں صوبے سوئی سدرن گیس کمپنی کے دائرہ اختیارمیں ہیں لیکن کراچی اور سندھ میں گھریلو صارفین کو گیس کا کم ریٹ جبکہ بلوچستان میں زیادہ ریٹس دینا پڑ رہے ہیں عدالت نے بحث سننے کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ٗڈسٹری بیوشن منیجر سمیت دو اہم ترین افسران کو منگل کے روز پیش ہونے کا حکم دیا عدالت نے سید نذیر آغا ایڈووکیٹ کی جانب سے کیس میں فریق بننے سے متعلق دی گئی درخواست کو بھی منظور کیا نذیر آغا ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا تھا کہ ضلع پشین اور تحصیل حرمزئی کے علاقوں میں گیس کی طویل ترین لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے 24 گھنٹوں میں صرف 3 گھنٹے ہی گیس کی فراہمی رات گئے کو جاتی ہے جبکہ سرکی روڈ کے رہائشی قیوم کاکڑ کی جانب سے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست عدالت نے منظور کرلی سماعت کے دوران ظہور احمد بلوچ نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست گزاری اور کہاکہ ہدہ سمیت دیگر قرب و جوار کے علاقوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے باعث بچے بوڑھے اور خواتین مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اس لئے ان کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظوری کرنے کی استدعا کی جاتی ہے بعد ازاں ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت کو 22 دسمبر تک کیلئے ملتوی کردیا ۔