کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری کاروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچستان میں چائنا و دیگر ممالک کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے انتہائی شدت سے بلوچ عوام کی نسل کشی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دشت کے مختلف علاقوں میں کاروائیوں کے دوران لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے و فورسز کی فائرنگ سے کمسن بچی سمیرہ بلوچ کی شہادت بلوچ دشمنی کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز مشکے کے علاقے مُرماسی کا گھیراؤ کرکے فورسز نے ایک درجن کے قریب مقامی لوگوں کے گھروں کو لوٹنے کے بعد نظر آتش کردیا جبکہ آواران میں پہلے سے جاری آپریشن میں وسعت لانے کے لئے مزید دستے آواران پہنچ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے جغرافیہ کو مفادات کے لئے سرمایہ کار کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کررہا ہے۔ بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں حکومت کی مدد کرکے بلوچ قتل عام میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں۔گوادر تا چائنا بننے والی اکنامک کوریڈور و اس سے منسلک دیگر پروجیکٹوں کو کامیاب بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر بلوچ عوام کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اکنامک کوریڈور کی ممکنہ گزرگاہوں سے ملحقہ آبادیوں کو زبردستی ان کے علاقوں سے بیدخل کر کے نکل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے طول عرض میں نہتے لوگوں کے گھروں کو نظر�آتش کرنے اور لوگوں کی گرفتاری و ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی کاروائیوں اسی منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کیے جارہے ہیں۔ ترجمان نے ایکشن پلان کی حالیہ سالانہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے مطابق بلوچستان سے ایک سال کے دوران دس ہزار کے قریب لوگ گرفتار کیے جا چکے ہیں، ایک سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود گرفتار ہونے والے لوگوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ بلوچستان میں پچھلے کئی سالوں سے ریاستی فورسز کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کو بغیر مقدمات کے لاپتہ کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے جو کہ انسانی حقوق کے بنیادی قوانین کی خلاف ورزی ہے