لاہور: پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے افراد کی افراد کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔
وویمن یونیورسٹی مدینہ ٹاؤن میں شہید پائلٹ مریم مختیار کی یاد میں منعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکام نے داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں 42 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے۔
یہ گرفتاریاں گزشتہ ہفتے مارے گئے چھاپوں کے دوران عمل میں آئیں۔
صوبائی وزیر قانون نے بتایا کہ گرفتار شدگان میں اسلام آباد میں داعش کے سربراہ امیر منصور، ان کے نائب عبداللہ منصوری اور سندھ میں گروپ کے سربراہ عمر کاٹھیو شامل ہیں جبکہ یہ ملزمان داعش کے لیے محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے میں مدد دیتے تھے۔
رانا ثناء اللہ نے مزید بتایا کہ چھاپوں کے دوران داعش کا تشہیری مواد اور ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔
صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ داعش کے خلاف آپریشن گذشتہ ہفتے ڈسکہ ڈسٹرکٹ سے داعش سے تعلق کے شبہ میں 13 افراد کو گرفتار کرنے کے بعد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور سے گرفتار کی جانے والی تین خواتین ارشادبی بی، فرحانہ اوربشریٰ بی بی سے تفتیش کے بعد دوسرے لوگوں تک بھی پہنچنے میں کامیابی ملی جو سوشل میڈیا اورلٹریچر کی مدد سے داعش میں شمولیت کے بارے سوچ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی اوردیگر ممالک سے سیکڑوں لوگ داعش میں شمولیت کے لیے عراق اورشام گئے مگر پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طورپر متحرک ہیں اورایسے عناصر پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش میں شمولیت کے لیے جانے والے کوئی نئے لوگ نہیں بلکہ یہ کسی نہ کسی طرح کالعدم تنظیموں سے رابطہ میں تھے۔
وزیر قانون نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک میں اس وباء کو جڑ نہیں پکڑنے دیں گے اوراس ضمن میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) بہت اچھا کام کررہی ہے۔
رانا ثناء اللہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے پنجاب پولیس کے سی ٹی ڈی نے سیالکوٹ میں داعش کے ایک سیل پر چھاپے اور پنجاب بھر سے داعش سے تعلق رکھنے والے 8 دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق ملزمان کے قبضے سے ہتھیار، دھماکا خیز مواد، لیپ ٹاپ اور بڑی تعداد میں سی ڈیز بھی برآمد کی گئیں، جن میں داعش کا تشہیری مواد موجود تھا۔
تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ گرفتار کیے جانے والے ملزمان نے ’پاکستان میں مسلح جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کے خاتمے اورخلافت قائم کرنے‘ کے لیے حلف اٹھا رکھا تھا۔
خیال رہے کہ سی ٹی ڈی نے ملزمان کو پنجاب کے مختلف شہروں سے گرفتار کیا، تاہم حکام کے مطابق ملزمان سیالکوٹ کو بیس کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے اور انھوں نے ملک بھر میں کارروائیوں کی غرض سے ضلع بھر میں اپنا بنیادی ڈھانچے قائم کررکھا تھا۔