|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2016

کوئٹہ:  بی ایس او آزاد کی جانب سے بلوچستان بھر میں پمفلٹ بعنوان ’’بلوچ قومی تحریک، ریاستی عزائم اور ہماری زمہ داریاں‘‘ تقسیم کی گئی۔ جس میں بلوچ عوام کو مخاطب کرکے بی ایس او آزاد نے کہا کہ بلوچ عوام 27مارچ1948سے لیکر تاحال اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔آزادی کی اس جدوجہد میں اب تک ہزاروں نوجوان و بزرگ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہو کر معزور ہو چکے ہیں جبکہ لاتعداد بلوچ فرزندان اپنی فطری حق آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کے جُرم میں ریاستی عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد برداشت کررہے ہیں۔لیکن آزادی کی جدوجہد چونکہ اپنی جڑیں بلوچ عوام میں پیوست کرچکی ہے، اس لئے تمام تر ریاستی جبر و تشدد و غیر انسانی اعمال کے باوجود بلوچستان بھر میں آزادی کی تحریک روز بہ روز فعال و متحرک ہو کر دشمن ریاست کے لئے حواس باختگی و پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔آزادی کی تحریک میں سرداروں و نوابوں کے بجائے عام بلوچ عوام کی شرکت سے قابض حکمرانوں کے لئے بلوچستان میں اپنا غیر قانونی وجود مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔اپنے اس غیر قانونی تسلط کو برقرار رکھنے اور بلوچ عوام کو مزید غلام رکھنے کے لئے ریاست انسانی احترام و جنگی قوانین کی تمام حدوں کو پار کرچکی ہے۔ بلوچستان بھر میں نہتے و معصوم بلوچوں کا اغواء و انہیں شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے انسانیت سوز واقعات روزانہ بلوچستان کے طول وعرض میں رونما ء ہو رہے ہیں۔انسانی احترام سے عاری فورسز بلوچ خواتین کو بھی اپنی اندھی طاقت کانشانہ بنا رہی ہیں، حال ہی میں آواران و بولان سے اغواء ہونے والے سینکڑوں خواتین کا اغواء ریاستی شکست خوردگی و اس کی جارحانہ عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔بلوچستان اپنی مخصوص جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے روز بہ روز اہم ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے مشرق کو مغرب سے ملانے کے مختصر ترین راستے بلوچستان سے ہو کر گزرتے ہیں جو کہ عالمی سرمایہ کاروں و توسیع پسند ممالک کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔قیمتی معدنی وسائل سے مالامال ہونے کی وجہ سے پاکستان سمیت دیگر ممالک کی کمپنیاں بلوچ عوام کی قتل عام میں معاونت و ہمکاری کرنے کے لئے فورسز و دوسرے اداروں کی مالی و عسکری مدد کررہے ہیں۔ بلوچ وسائل کو پنجاب و پاکستان کے دوسرے حصے تک پہنچانے کے لئے پاکستانی میڈیا اور اسکے حکومتی اراکین بلوچ عوام کو نام نہاد ترقی کا جھوٹا خواب دکھا کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔1953سے بلوچستان کے علاقے سوئی سے نکلنے والی گیس سے پاکستان اپنی کمزور و خستہ حال معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کررہا ہے، اسی طرح، چمالنگ میں کوئلہ نکالنے کے لئے ڈیپ ڈرلنگ پروجیکٹس،تاپی گیس پائپ لائن، دلبند سے لوہا نکالنے کے پروجیکٹس اور گڈانی پاور پروجیکٹ سمیت بلوچستان میں بلوچ عوام کی مرضی کے بغیر ہونے والی سرمایہ کاری کا مقصد صرف اور صرف بلوچ وسائل کا استحصال کرکے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ طاقت کے زور پر بلوچ عوام کو زیر کرنے اور اپنی کو مزید طول دینے کے لئے ریاست نے بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے ایک عالمی نوعیت کا معاہدہ چائنا کی کمپنیوں سے کیا ہے۔اس معاہدے کے تحت چائنا کی کمپنیاں 40سال تک ساحلِ بلوچ ’’ گوادر‘‘ کو اپنے جنگی و کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے گوادر سے چائنا تک سڑکوں و ریلوے ٹریک بنانے کیلئے 46بلین ڈالر کے منصوبے شامل ہیں تاکہ چائنا کی استحصالی کمپنیاں گوادر پورٹ تک آنے والی اشیاء کوآسانی سے بزریعہ ریلوے ٹریک و سڑک چائنا تک منتقل کر سکیں۔ حکومت بلوچستان پر زمین کے اندر چھپے معدنیات لوٹنے کے ساتھ ساتھ بلوچ جغرافیہ کو اپنے جنگی و کاروباری مقاصد کے علاوہ کروڑوں غیر بلوچوں کی بلوچستان میں آبادکاری کے منصوبوں پر بھی عمل پھیرا ہیں۔ جنکی کامیابی بلوچ قوم کے لئے اجتماعی موت کا پیشگی خطرہ ہیں۔ ریاستی جبر وتشدد اور استحصالی پالیسیوں کے خلاف نبرد آزما ہونے اور اپنے آنیوالے نسلوں کے لئے ایک آزاد و پر امن بلوچ ریاست کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ آج کی پریشانیاں و تکالیف ہمارے حوصلوں کے سامنے رکاوٹ نہ بنیں۔اور نہ ہی ایک غلام قوم کے فرزند ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی غلامی و ذلت کی زندگی کو بچانے کے لئے آنیوالے نسلوں کی آزادی کو قربان کریں۔یہ ہمارا ایمان ہے کہ فتح ہرحال میں بلوچ عوام کی ہوگی۔