|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2016

اسلام آباد:  سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحا ت کا جلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں صوبوں کے ترقیاتی منصوبہ جات اور خاص طور پر بلوچستان کے منصوبہ جات،نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے سی پیک کے منصوبہ جات،سڑکیں اور انفراسٹرکچر کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ ملک کی ترقی کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔اس منصوبے کی بدولت ملک کی نہ صرف معاشی حالت بہتر ہو گی بلکہ لوگوں کی حالت زار میں بھی نمایاں بہتری ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے حوالے سے جو چھوٹے صوبوں کو تحفظات حاصل ہیں ان کو متعلقہ ادارے تفصیلی معلومات سے آگاہ کریں اور معاملات میں بہتری لائیں۔انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی بدولت صوبہ بلوچستان اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔بلوچستا ن کے لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ ان کو بنیادی حقوق میسر نہیں ہیں۔اس منصوبے کیلئے پارلیمنٹیرین اپنے علاقوں کے مسائل متعلقہ اداروں تک پہنچا رہے ہیں اور امید ہے کہ ان مسائل کو حل کر کے معاملات میں بہتری لائی جائے گی۔بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر اس کا بڑا حصہ پسماندگی کا شکار ہے بہتر حکمت عملی کی بدولت بہتری لائی جا سکتی ہے۔جنرل منیجراین ایچ اے عاصم امین نے قائمہ کمیٹی کو بلوچستان میں جاری منصوبہ جات بارے تفصیل سے آگاہ کیا ۔انہوں نے بتایا کہ قلات کوئٹہ چمن روڈ کا 80فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔جس پر رکن کمیٹی میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ اس منصوبے کو سترہ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی مکمل نہیں ہوا اور خضدار اور رتو ڈیرو کے روڈ کو جب تک مکمل نہیں کیا جائے گا گوادر کو پاکستان سے لنک نہیں کیا جا سکتا اس روڈ کے بننے سے 700کلومیٹرسفر کم ہو سکتا ہے۔جس پر جنرل منیجر نے کہا کہ یہ معاملہ چین کی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے ڈیزائنگ اگلے چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گی ۔جس پر کمیٹی نے کام جلد سے جلد مکمل کرنے کی سفارش کر دی۔اراکین کمیٹی نے پی ایس ڈی پی میں نا منظور ہونے والے منصوبہ جات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ۔سبی سے کچی کے منصوبے کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کی منظوری نہیں ہوئی چیف سیکرٹری سے اس حوالے سے مدد لی جارہی ہے اور اس منصوبے پر صوبائی اور وفاق 50فیصد کے حساب سے خرچ کرینگے۔درگئی،سبوزئی،روڈ کے حوالے سے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ منصوبے کی لاگت تقریباً5ہزار ملین ہے اور یہ2013میں شروع ہوا تھا ور ابھی تک300ملین مختص کئے گئے ہیں۔ہمارے صوبے کے جتنے بھی منصوبہ جات ہیں ان کی پراگریس اچھی نہیں ہے سوئی سے اوچ روڈ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ50فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان میں ایک کلو میٹر بھی موٹر وے نہیں ہے چھوٹے صوبوں میں ہائی ویز بنائی جا رہی ہیں ایسا میکنزم بنایا جائے کہ تمام صوبوں کو بغیر احتجاج کے یکساں ترقی کے مواقع فراہم کیئے جائیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ان منصوبہ جات میں مقامی ٹھیکیداروں کو بھی موقع فراہم کیا جائے ۔سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ سبی راکھنی روڈضیا ء الحق کے دور میں بننا شروع ہو ا تھا مگر ابھی تک یہ مکمل نہیں ہوا اگر یہ منصوبہ بن جاتا ہے تو پنجاب کی ٹریفک مختصر راستے سے بلوچستان میں داخل ہوسکتی ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔موجودہ پراگریس کے حوالے سے اراکین کمیٹی نے عدم اطمنیان کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اگلے اجلاس میں چیئرمین ایچ ای سی کو بلا کر معاملات بارے معلومات حاصل کی جائیں گی۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان میں چھ ڈویژن ہیں اور ہر ڈویژن میں ا یک یونیورسٹی قائم کی جائے تاکہ وہاں کی عوام کو اعلی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوں۔کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں بننے والے ڈیمز کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔پیکج ۔IIکے تحت بننے والے سو ڈیموں کے بارے میں قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ26ڈیم مکمل ہو چکے ہیں باقیوں بارے کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔جس پر رکن کمیٹی سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی نے کہا کہ فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے بہت سے ٹھیکیدار کام چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔منگی ڈیم کے حوالے سے کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر فیڈرل ایگزیکیٹیو ایجنسی سے کرائی جائے تاکہ کام کامیاب اورتسلی بخش ہو۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس منصوبے کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے2 ارب روپے صوبائی حکومت بلوچستان کو فراہم کر رکھے ہیں یہ منصوبہ وفاق اور صوبائی حکومت ملکر ختم کرینگے۔صنعت سے متعلق شعبہ جات بارے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان منصوبہ جات کی فنڈنگ وفاق کر رہا ہے جبکہ کنٹرول صوبائی حکومت کر رہی ہے۔بوسٹن صنعتی زون کے قیام کے حوالے سے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ اس کی منظوری2011میں ہوئی تھی اور اس منصوبے کی لاگت400ملین روپے ہے اور ابھی تک صرف25ملین مختص کئے گئے ہیں۔یہ کب مکمل ہو گا۔اراکین کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پلاننگ ڈویژن بلوچستان کے ان منصوبہ جات کی لسٹ قائمہ کمیٹی کو فراہم کرے جن کو صوبائی حکومت نے ختم کرنا ہے تاکہ متعلقہ معلومات کی بدولت معاملات میں بہتری لائی جاسکے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کوئٹہ ،پشاور ریلوے ٹریک کیلئے فیزیبلٹی سٹڈی کرائی جارہی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پلاننگ ڈویژن اور این ایچ اے نے قائمہ کمیٹی کو اچھی اور معلومات پر مبنی تفصیلی بریفنگ دی ہے بہت سے مسائل سے آگاہی ہوئی ہے او ربہت سے خدشات دور ہوئے ہیں۔سیکرٹری پلاننگ ڈویژن نے کہا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ ایک طویل اور مدتی منصوبہ ہے تمام صوبوں کے خدشات دور ہو جائیں گے۔اس منصوبے کی تکمیل سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔کمیٹی کے کے اجلاس میں سینیٹرز سراج الحق ،مفتی عبد الستار،حاصل خان بزنجو،محمد عثمان خان کاکڑ،سعید الحسن مندو خیل،آغا شہباز خان درانی،نوابزادہ سیف اللہ خان مگسی کے علاوہ سیکرٹری منصوبہ بندی ڈویژن یونس نسیم،جنرل منیجر عاصم امین و دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔