کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں آپریشن جاری ہے۔ آواران کے علاقے پیراندر زیلگ میں فوجی موٹر سائیکل سواروں نے گاؤں کا گھیراؤ کرکے عورتوں اور بچوں کو حراسان کیا۔ اور گھروں کے دروازے توڑ کر تلاشی لی۔ تاہم کسی کو اغوا نہیں کیا گیا۔گزشتہ روز آواران گورستانی میں بھی فوج نے گھروں میں توڑ پھوڑ اور لوگوں کو حراسان کیا۔قاسمی جو میں ذکریوں کی عبادت گاہ سید پیر سے زیارت کے منجار دل پل ولد رمضان، ملا محمد حسن اور گل محمد کو اغوا کرکے لاپتہ کر دیا۔واضح رہے اسی زیارت پر اگست 2014 میں مذہبی ڈیتھ اسکواڈ نے فائرنگ کرکے آٹھ بلوچ فرزندوں کو شہید کیا تھا۔ آج ایک دفعہ پھر اسی عبادت گاہ سے تین فرزندوں کو اغوا کیا ۔یہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کی سربراہی کرنے کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔ ترجمان نے کہا کہ دشت گومازی و ملحقہ علاقوں میں کئی فوجی چوکیاں قائم کرکے لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔2 جنوری کو دشت زرین بگ میں بمباری سے ایک آٹھ سالہ بچہ بالاچ ولد پیر محمد خوف سے گھبرا کر دل کا دورہ پڑنے سے شہید ہوئے۔ اسی طرح دشت زرین بگ میں 5 جنوری رات کو ایک مریضہ مونا زوجہ محمد اسلام بنت عصا عمر اٹھارہ سال ، کو حاملہ درد کی حالت میں ہسپتال پہنچاتے ہوئے چوکی پر آگے جانے کی اجازت نہ ملنے مریضہ چل بسیں۔ ان کارروائیوں کے خلاف بلوچ خواتین نے بل دشت میں ایک ریلی نکالی۔ ترجمان نے کہا کہ 6 جنوری نے جھاؤ کوہڑو سے مجید ولد سبزل کو اس وقت اغوا کرکے لاپتہ کیا جب وہ اپنے کھیتوں پر کام کر رہا تھا۔ ساتھ ہی کل 7 جنوری کو بالگتر اور پنجگور کے درمیان نگور، گران اور چڈو سمیت کئی علاقوں میں ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کی اطلاعات ہیں مگر دور دراز علاقہ اور ٹیلی کمیونیکیشن نہ ہونے کی وجہ سے مزید معلومات اور نقصانات کی تفصیلات تک رسائی ممکن نہیں ہو پارہی۔ ان علاقوں میں آپریشن سے اب تک سینکڑوں گھر تباہ اور ہزاروں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ان علاقوں میں آپریشن اور آبادی کو بے دخل کرنے کی وجہ گوادر کاشغر سڑک ہے۔ اس سڑک کے کنارے آباد تمام گاؤں ایک ایک کرکے ختم کئے جارہے ہیں۔ ان کارروائیوں میں بے شمار بلوچ شہید ہوئے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی رہداری منصوبے کے بعد آپریشن میں شدت لائی گئی ہے ۔ان جنگی جرائم میں چین بھی پاکستان کے ساتھ شریک ہے، جہاں تمام انسانی و جنگی قوانین کو پامال کیا جارہا ہے مگر میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے یہ انسانیت سوز مظالم کسی میڈیا میں کوریج حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔میڈیا ادارے اور صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے بلوچستان کا دورہ کرکے مظالم کا آنکھوں دیکھا حال بیان کریں۔