|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2016

مٹھی: سندھ کے قحط زدہ ریگستانی علاقے نے مزید 7 بچوں کو نگل لیا، جس کے نتیجے میں رواں ماہ ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی ہے جبکہ کم سے کم 220 بچوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل کروایا گیا ہے۔ مزکورہ بچے ہسپتال منتقل کیے جانے سے قبل ہی موت کا شکار ہوئے، ان میں سے 4 بچوں کا تعلق نگرپارکر کے دیہی علاقوں اور دیگر 3 کا تعلق مٹھی، اسلام کوٹ اور ڈیپلو سے ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے موجودہ صورت حال پر قائم کی جانے والی کمیٹی کے رکن اور صوبائی وزیرِ خوراک سید نصیر حسین شاہ نے مٹھی کے ہسپتالوں کا دورہ کیا۔ بعد ازاں ڈپٹی کمیشنر کے دفتر میں مقامی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ حکومت قحط زدہ علاقوں میں قائم صحت کے یونٹس میں ’مکمل سہولیات فراہم کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم‘ ہے۔ صوبائی وزیر نے تسلیم کیا کہ علاقے میں قحط کی صورت حال ہے تاہم میڈٰا کی جانب سے اسے” خطرناک ” قرار دینا درست نہیں۔ خیال رہے کہ سندھ کے علاقے تھر کو موسمی اور ماحولیاتی حالات کے باعث ہر دس سال کے عرصے میں 2 سے 3 سال قحط کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ علاقہ ہندوستان کے علاقے راجستان سے منسلک ہے جہاں پر صورت حال یکساں ہے۔ انھوں نے ہلاک ہونے والے بچوں کے حوالے سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی 5 رکنی کمیٹی ہسپتالوں اور ہیلتھ یونٹس کو اولین ترجیح دے گی۔ نصیر حسین شاہ نے ریونیو ڈپارٹمنٹ کے حکام کو ہدایات دیں کہ وہ متاثرہ علاقے کے کسانوں کیلئے ٹیکس کی ادائیگی کو معطل کردیں اور اگر حالیہ دنوں میں کسی سے ٹیکس وصول کیا گیا ہے کہ اسے واپس ادا کیا جائے۔ تھرپارکر کے ڈپٹی کمیشنر کی جانب سے پیش کی گئی تفصیلی رپورٹ پر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے خود کہیں گئے کہ تھر کو قحط زدہ علاقہ قرار اور متاثرہ آبادی کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے اور ساتھ ہی ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحیقین کو مالی معاوضے کی ادائیگی کا اعلان کیا جائے۔ بریفنگ کے دوران ان کے ہمراہ رکن قومی اسمبلی فقیر شیر محمد بلالانی، رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر مہیش کمار مالانی، وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے مشیر عنایت اور پیپلز پارٹی کے دیگر عہدیدار موجود تھے۔