|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2016

کوئٹہ:  بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان بھر میں جاری کاروا ئیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں آواران کے علاقوں پیراندر، زیلگ ،قاسمی جو اور گورستانی کو فورسز نے محاصرے میں لیکر گھروں میں تھوڑ پھوڑ اور خواتین و بچوں کو ہراساں کر نے کے بعددلپل ولد رمضان،ملا حسن اور گل محمد بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ۔جبکہ جھاؤ سے چند دن قبل آپریشن کے دوران مجید ولد سبزل بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ۔ترجمان نے کہا بلوچستان میں بلوچ عوام کو آزادی کی تحریک سے دور کرنے کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر عام آبادیوں پر حملہ آور ہوکر لوگوں کو بلا تفریق نشانہ بنا رہے ہیں۔ اہلکار لوگوں کو گھروں سے اُٹھا کر لاپتہ کرنے و تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مغوی بلوچ فرزندان کو بغیر کسی قانونی کاروائی کے شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی ہیں۔بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عالمی دلچسپی اور سرمایہ کار کمپنیوں کے لئے سازگار ماحول بنانے و چائنا کی سرمایہ کاری کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ریاستی مشینری پوری طرح سے بلوچ قومی تحریک کے خلاف متحرک ہے۔چائنا کے صدر کی پاکستان آمد اور کروڑوں ڈالر کی معاہدات پر دستخط کے بعد فورسز نے بلوچ نسل کشی کی کاروائیوں میں انتہائی شدت لائی جو کہ روز بہ روز شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ خود حکومتی نمائندوں کے مطابق ایک سال کے عرصے میں دس ہزار کے قریب لوگ بلوچستان سے اغواء کیے جا چکے ہیں۔ ان تمام مغویوں کو نہ عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری کیے گئے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ پچھلے کئی دہائیوں سے جاری آزادی کی تحریک کوکاؤنٹر کرنے کے لئے فورسز لوگوں کیے اغواء کرنے کی پالیسی پر عمل پھیرا ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں بلوچ فرزندان اغواء کیے جا چکے ہیں۔ بلوچستان بھر سے اغواء ہونے والے ہزاروں فرزندان کی زندگیوں کو ریاستی ٹارچر سیلوں میں شدید خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سوئی کے علاقوں سے فورسز نے ایک آپریشن کے دوران تین بلوچ فرزندان کو اغواء کے بعد لاپتہ کردیا۔ بلوچ معاشرے میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کے لئے سول آبادیوں کے اندر قائم چوکیوں و کیمپوں سے قریبی آبادیوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے اب تک مختلف علاقوں سے کئی کمسن بچے و نوجوان شہید ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں تمپ کے علاقے گومازی میں ساجد نامی کمسن فرزند فورسز کی جانب سے آبادی پر فائر ہونے والے مارٹر گولہ لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس سے پہلے دشت، آواران،جھاؤ، ہوشاب، مشکے اور ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں آبادیوں پر بلا اشتعال ہونے والی گولہ باری سے درجنوں لوگ شہید و زخمی جبکہ ہزاروں خاندان نکل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ اگر عالمی اداروں نے بلوچستا ن کی سنگین صورت حال پر قابو پانے و بلوچ نسل کشی کو روکنے کے لئے فوری مداخلت نہیں کی تو ریاست اس خاموشی کو اپنی حمایت سمجھ کر بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی مدد سے اس طرح کی کاروائیوں میں مزید شدت لا سکتی ہے۔ جس کے زمہ دار اپنی پیشہ ور زمہ داریوں سے روگردانی کرنے والے عالمی ادارے بھی ہوں گے۔