کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کو محکمہ صحت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی 22ارب روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود انتہائی دکھ و افسوس کا مقام ہے کہ کوئٹہ شہر کے بڑے سرکاری ہسپتالوں جن میں سول ہسپتال بھی شامل ہیں ایم آر آئی اور سی ٹی سکین جیسی اہمیت کی حامل مشینیں میسر نہیں ہیں محکمہ صحت کے اعلیٰ آفیسر کی ایکسیڈنٹ ہوا تو سی ٹی سکین پرائیویٹ ہسپتال سے کروایاگیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ سابق حکومت محکمہ صحت کو چلانے میں مکمل طور پر ناکام تھی۔یہ بات انہوں نے گزشتہ روز بات چیت کرتے ہوئے کہی ‘انہوں نے کہاکہ ہمارے دور حکومت میں کروڑوں روپے کی لاگت سے ٹراما سنٹر بنانے کی ہم نے منظوری دی تھی جس میں ایک چھت تلے تمام ابتدائی طبی امداد دی جاسکتی ہو کیلئے فنڈز جاری کردیا تاہم حکومت ختم ہونے کی وجہ سے اس حالت پر نہیں پہنچا سکے جس سوچ لیکر ہم نے منصوبہ شروع کیا تھا اگر سول ہسپتال کوئٹہ میں ٹراما سنٹر کو بحال کردیا جاتا تو دہشتگردی یا کسی اور ایمرجنسی کی صورت میں سول ہسپتال میں ایک چھتے تلے تمام مریضوں کا علاج ہوتا جس سے قیمتی جانیں بچنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کو سی ایم ایچ یا پھر آغا خان ہسپتال منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جس سے قیمتی جانیں بچانے کیساتھ سرکاری خزانے کو بھی دیگر ہسپتالوں کو علاج و معالجے کی مد میں ادائیگی نہیں کرنی پڑتی انہوں نے کہاکہ محکمہ صحت کے بعض عہدیدار نہیں چاہتے کہ ٹراما سنٹر فعال ہو جس کی کیلئے وہ اس میں روڑے اٹکارہے ہیں صوبے کی حالات کا تقاضا ہے کہ ٹراما سنٹر فی الفور فعال کیا جائے جس کی بلڈنگ بھی بنی ہوئی ہے لیکن 47کروڑ روپے کی مشینری کی خریداری جس پر ٹراما سنٹر کا انچارج اعتراضات کی وجہ سے دستخط نہیں کررہا محکمہ صحت اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے عوام کو کیوں مشکلات سے دوچار کررہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان بھر کے ہسپتالوں اور خصوصاً کوئٹہ کے چار بڑے ہسپتالوں کی دیکھ بھال کیلئے اپنی سربراہی میں محکمہ صحت سے الگ ایک ونگ قائم کریں جو کہ روزانہ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ کو رپورٹ جمع کرتا رہیں اور وزیراعلیٰ جہاں پربہتر سمجھے اصلاحات کا ازخود حکم دیاکریں کیونکہ محکمہ صحت کے رپورٹوں پر اگر وزیراعلیٰ بلوچستان نے انحصار کرنا شروع کردیا تو سب کچھ کاغذوں میں ٹھیک جبکہ درحقیقت کچھ بھی نہیں ہوگا۔