|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی نے وفاقی کارپوریشنوں اور سرکاری اداروں میں صوبے کی ملازمتوں کے کوٹے سے متعلق مشترکہ قرار داد ترمیم کے ساتھ منظور کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیدی ، قرار داد میں صوبے کی ملازمتوں کے کوٹے میں اضافے اور صنعتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔مشترکہ قرار داد پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نصراللہ زیرے ،آغا لیاقت ، منظور کاکڑ ، عبدالمجید خان اچکزئی ، ولیم جان برکت ، شپوژمئی اچکزئی اور عارفہ صدیق کی جانب سے لائی گئی تھی ۔ قرار داد آغا سید لیاقت نے پیش کی ۔ انہو ں نے کہا کہ وفاقی کارپوریشنوں ، سرکاری محکموں اور دیگر اداروں میں صوبہ بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرہے اور ساتھ ہی صوبے میں صنعتوں کا قیام بھی عمل میں نہیں لایا گیاہے جس کی وجہ سے صوبے کے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار کا شکار ہے۔ قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ ملک کے وفاقی کارپوریشنوں ، سرکاری محکموں اور دیگر مالیاتی اداروں میں صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کو متعین کردہ کوٹے کے مطابق ملازمتیں فراہم کی جائیں اور صوبے ہی صوبے میں صنعتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جائے تاکہ صوبے کے بے روزگار نوجوانوں میں پائی جانے والی احساس محرومی اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے ۔ قرار داد کی موذونیت پر بات کرتے ہوئے محرک آغا سید لیاقت نے کہا کہ وفاقی کارپوریشنوں کی تعداد تقریباً ایک سو86 ہے جن میں لاکھوں ملازمین ہیں ان میں 50 فیصد ملازمین پنجاب جبکہ 7.6 سندھ کے شہری اور 11.4 دیہی آبادی کا حصہ ہے اس طرح ان کا کل حصہ19 فیصد ہے ، کے پی کے کاحصہ 11.5 فیصد ہے جبکہ7.5 میرٹ کا حصہ ہے اور ہمارے صوبے کا صرف 6 فیصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمار ے بدقسمت صوبے کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے شاید وہ ساؤتھ افریقہ میں انگریزوں نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ انہوں نے ادارہ برائے فروغ برآمدات ادارے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا چیئرمین مسلم کمرشل بینک کا سی ای او ہے حالانکہ اس ادارے میں بلوچستان کا بہت زیادہ کنٹربیوشن ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے صوبے کا چاول کی کل برآمدات میں27.5 فیصد حصہ ہے مگر ٹی ڈی سی میں صوبے کا ایک چپڑاسی تک موجود نہیں جس کارپوریشن اور ادارے میں ہمارے صوبے کے تاجروں کا خون شامل ہے اس میں ہمارا ایک بھی ملازم نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ 25 ٹریڈ نمائشیں لگتی ہیں جس میں ایک بھی نمائش میں اس صوبے کی نمائندگی تک نہیں ہوتی ۔ اسی طرح پی آئی اے ، ریلوے ، واپڈا اور دیگر وفاقی اداروں میں بھی بلوچستان کی نمائندگی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کم ہے یہاں بے روزگاری زیادہ ہے مگر ملازمتوں کا جو کوٹہ ہے وہ انتہائی کم ہے ۔ قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہاکہ یہ قرار داد اہمیت کی حامل ہے یہاں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے کارپوریشنوں اور فیڈرل گورنمنٹ کے اداروں میں صوبے کے نوجوانوں کو ٹھیک ٹھاک ملازمتیں ملنی چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ ماضی میں بھی ناانصافیاں ہوئی اب اس کا تدارک اور ازالہ ہونا چاہیے ۔ اقلیتی رکن ولیم جان برکت نے کہا کہ ہم اپنی حق تلفی خودبھی کرتے ہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جو بھرتیا ں ہوتی ہیں اس میں ہمارے صوبے کی نمائندگی کم ہے ،ہم اپنی حق تلفی خود بھی کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت ایس اینڈ جی اے ڈی میں 7 آسامیوں میں سے 2 پر ہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھرتی کیا جانا ہے یہ ہمارے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ انہوں نے قرار داد بارے ایوان کے اراکین سے اپیل کی کہ وہ اس کی حمایت کرے۔ رکن اسمبلی عبیداللہ جان بابت نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس قرار داد کی اہمیت کرتے ہیں ۔ بلوچستان کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے بلوچستان ہاؤس اسلام آباد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آفیسرا ن کے 7میں سے صرف 3 پر بلوچستان کے لوگ بھرتی کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ڈومیسائل پر ایسے لوگ وفاقی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں جنہوں نے کبھی بلوچستان دیکھا تک نہیں ہے،ہمیں عدلیہ سمیت دیگر میں نمائندگی کا حق ملنا چاہیے ۔ لیاقت آغا کاکہنا ہے کہ ہمیں وفاق ایک فیصد حصہ دے ایسا نہیں ایک کی بجائے 10 فیصد حصہ مانگنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ برے حالات کو بدقسمتی کہہ کر اپنے گلے نہیں لینا چاہیے ۔ نواب ثناء اللہ بطور قائد ایوان ہمت کا مظاہرہ کرے ہم ان کے پشت پر ہوں گے ۔ رقیہ سعید ہاشمی نے کہا کہ پہلے بھی بلوچستان اسمبلی میں اس طرح کی قرار دادیں لائی جاتی رہی ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ صرف تقریر کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا عمل درآمد بھی ہونا چاہیے ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس سلسلے میں ڈی ایم جی گروپ کے آفیسران،سول سوسائٹی سمیت دیگر پر مشمتل کمیٹی کے ذریعے اس مسئلے کی حل کی بات کی تھی ۔ نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے جب سے یہ صوبہ بنا ہے ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ وفاق میں جو بھی سرکاری ادارے ہیں ان میں بلوچستان کا کوٹہ مختص ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں بھی اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم پاکستان ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے نواب ثناء اللہ زہری وفاق کے ساتھ طلبا ء کی سکالرشپ ، مختلف منصوبو ں کو فعال بنانے سمیت دیگر مسئلے اٹھائے کیونکہ منصوبوں کی بندش سے یہاں بڑے پیمانے پر نوجوان بے روزگار ہوئے ہیں۔ منصوبے فعال ہو تو بے روزگاری کا خاتمہ از خود ہوگا ۔ نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے بھی اپنی اور اپنی جماعتوں کی جانب سے قرار داد کی مکمل حمایت کی ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہاکہ اس ملک میں ہم 70 سال سے چیخ رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اگر ہم اٹھارویں ترمیم اور وفاقی حکومت کے ساتھ اپنی کولیشن کی ذرائع کو بروئے کار لائیں اور بلند حوصلے سے کام کریں تو کوئی بھی گریجویٹ بے روزگار نہیں ہوگا ہمیں2 سو 50 سے زائدکارپوریشنز میں اعداد و شمار کے تحت مثبت انداز میں اپنے نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے آوازبلندکرنی ہوگی ۔ میر عاصم کر دگیلو نے بھی مشترکہ قرار داد کی حمایت کی ۔ انہو ں نے کہا کہ 1988 میں نواب اکبرخان بگٹی نے سارے کارپوریشنوں کے اعداد و شمار نکالے تھے جس کے بعد قرار داد لائی گئی تھی اس کے بعد بھی قرار دادیںآئیں مگر عمل درآمد نہیں ہوا ،قرار دادوں پر عملدرآمدکرانا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ اسمبلی اراکین عبیداللہ جان بابت اور لیاقت آغا کا یہ کہنا درست ہے کہ بعض لوگ صرف نام کے حد تک بلوچستانی ہوتے ہیں انہیں اس کے علاوہ کسی چیز کا پتہ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے یہاں ٹیکسٹائل ملز ختم کئے گئے جبکہ انڈسٹریز کو کروڑوں روپے کے بل بھجوائے گئے جس کی وجہ سے وہ بند ہوگئے ۔ وفاقی حکومت بلوچستان میں انڈسٹری مالکان کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے ۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حلقہ انتخاب ڈھاڈر میں سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے گزشتہ 2 دن سے گیس کی سپلائی بند کردی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات درپیش ہیں لہذا وہ اس مسئلے کا نوٹس لیں ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ جس دن سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس وقت سے فیڈرل ملازمتوں میں ہمارے کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ صوبے کے حقوق پامال کئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی فیڈریشن کا حصہ ہے ہم نے شراکت دار کی حیثیت سے مرکز کے ساتھ یہ چیزیں اٹھانی ہیں۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پیکج کا اعلان کیا گیا 3 سال تک 5 ہزار ملازمین کو تنخواہیں دینے کے بعد انہیں ہمارے گلے میں ڈالا گیا ۔ گیس ہمارے ہاں سے نکلی جن اضلاع کو فراہم کی گئی ہے وہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 240 پر عمل درآمد ہونا چاہیے جس سے ہمارے حقوق کا تحفظ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی دے کر ہم پر کوئی احسان نہیں کیا گیا وہ ہمارا حق تھا ۔ انہوں نے تجویز دی کہ قرار داد میں کارپوریشنوں کے بعد اتھارٹی کا لفظ بھی شامل کیا جائے اور ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں اراکین شامل ہو اور یہ کمیٹی وزیراعظم اور دیگر حکام سے بات کریں تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے ۔ قائد ایوان نواب ثنا ء اللہ زہری نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں اگر کمیٹی بنانی ہے تو بنالیں ۔ قائد ایوان سے مشاورت کے بعد پینل آف چیئرمین نصراللہ زیرے نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں ایوان کی تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی قائم کردی جبکہ ایوان نے قرار داد کو ترمیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کرلیا ۔ بلوچستان اسمبلی کا آئندہ اجلاس ہفتہ 16 جنوری کو 4 بجے منعقد ہوگا ۔