کراچی : شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت کے لیے غیر قانونی طور شام جانے کی کوشش کرنے والے کراچی کے 2 نوجوانوں نے اہل خانہ اور سیکیورٹی اداروں کے تعاون سے ہونے والی نفسیاتی کاؤنسلنگ کے بعد شدت پسند خیالات اور ‘مسلح جدوجہد’ میں شمولیت کا فیصلہ ترک کر دیا۔
دونوں نوجوانوں کو شام جانے کی کوشش کرتے ہوئے ایران سے گرفتار کیا گیا تھا.
کراچی پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے انچارج راجا عمر خطاب نے دعویٰ کیا کہ ماہر نفسیات کے مطابق دونوں نوجوان، جن کی عمریں 20 برس کے لگ بھگ ہیں، اب عسکریت پسندی کی طرف رجحان نہیں رکھتے تاہم پھر بھی ان کی نگرانی کی جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق کراچی کے مڈل اور اپر مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اِن دونوں نوجوانوں کو ایرانی حکام نے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجسنی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا جس کے بعد انھیں کوئٹہ پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔
بعد ازاں ان نوجوانوں کو کراچی میں سی ٹی ڈی حکام کے حوالے کردیا گیا۔
سی ٹی ڈی عہدیدار کے مطابق ان نوجوانوں کو شام پہنچنے کی کوشش میں تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصے تک انتہائی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، یہی وجہ ہے کہ وہ اب دوبارہ اس بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔
راجا عمر خطاب نے بتایا کہ ابو خالد عرف ابو عقبہ سے بذریعہ ٹوئٹر رابطے سے پہلے دونوں نوجوانوں کا کوئی جہادی بیک گراؤنڈ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں موجود عسکریت پسند گروپ داعش نے ان نوجوانوں کی کراچی میں ایک ملاقات کا اہتمام کیا اور انھیں ترکی کی سرحد پر پہنچنے کا کہا گیا جہاں سے انھیں وصول کرکے داعش میں بھرتی کیا جاسکتا۔
دونوں نوجوانوں (جن کی شناخت خفیہ رکھی گئی) نے بلوچستان میں انسانی اسمگلروں کو ایران جانے کے لیے 2 لاکھ 60 ہزار روپے ادا کیے اور آخرکار دیگر 25 افراد کے ساتھ انھیں گاڑی میں لے جایا گیا، سمت کے اندازے کے بغیر وہ ایک ماہ تک سفر کرتے رہے لیکن ترکی کی سرحد پر پہنچنے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور یہی وہ وقت تھا جب ایرانی حکام نے انھیں گرفتار کیا اور ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔
سی ٹی ڈی عہدیدار کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کی جانب سے داعش میں شمولیت کی کوششوں کا یہ واحد مصدقہ کیس ہے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید ثبوت حاصل نہیں ہوسکے کہ پاکستان سے لوگ داعش میں شمولیت کے لیے جارہے ہیں۔
راجا عمر خطاب کے مطابق چونکہ مذکورہ نوجوان کسی قسم کا عسکری پس منظر نہیں رکھتے تھے، لہذا ماہرِ نفسیات اور اہلخانہ کی مدد سے ‘بحالی’ کے بعد انھیں رہا کردیا گیا۔
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا، ‘سانحہ صفورہ کے بعد اور سیالکوٹ، پنجاب سے ہونے والی گرفتاریوں اور داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی جانب سے نامزد کردہ داعش کے رہنما حافظ سعید اور شاہد شاہد اللہ کی گرفتاری کے بعد بھی داعش سے متاثرہ ان شدت پسندوں کے آپس میں روابط کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔’
ان کامزید کہنا تھا کہ داعش سے متاثرہ یہ خود ساختہ عسکریت پسند گروپ اپنے طور پر آزادانہ کام کر رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسا واحد پلیٹ فارم نہیں ہے، جہاں وہ متحدہ ہوکر دہشت گردی کے اقدامات کرسکیں۔
سی ٹی ڈی عہدیدار کے مطابق داعش سے متاثرہ یہ عسکریت پسند مذہبی تنظیموں جیسے تنظیمِ اسلامی سے بننے والے مختلف دھڑے ہیں جبکہ تنظیم اسلامی کے داعش سے براہ راست روابط کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حافظ عمر،حافظ ناصر، علی رحمٰن، اختر عشرت اور اسد رحمٰن پر مشتمل تنظیم کا ایک گروپ داعش سے متاثر پایا گیا اور ان میں سے کچھ کو صفورہ چورنگی پر اسماعیلی کمیونٹی کی بس اور امام بارگاہوں پر حملوں اور پولیس اہلکاروں اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
راجا عمر خطاب نے اعتراف کیا کہ داعش سے متاثرہ گروپ نے صفورہ کیس میں اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد سبین محمود کے ڈرائیور اور سب انسپکٹر ملک اشفاق کو قتل کیا جو صفورہ کیس کے ملزم طاہر منہاس کے خلاف ثبوت اکٹھے کر رہے تھے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے وہ صرف اپنی موجودگی ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور حقیقت میں سبین محمود کے ڈرائیور اور پولیس انسپکٹر کے قتل سے ان دونوں کیسز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔