ملک کے اندر سنجیدہ افراد کو یہ شکایت ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کارروائی کرتی آرہی ہے۔ سنجیدہ افراد کی یہ شکایت درست اس وقت معلوم ہوئی جب بھارت کی نشاندہی کے بعد جیش محمد کے خلاف کارروائی گئی۔ ورنہ مولانا مسعود اظہر کو گزشتہ 14سالوں سے کھلی چھٹی دی گئی تھی, اس نے نہ صرف اپنی دہشت گرد تنظیم بنائی تھی بلکہ اس کو تندرست اور توانا بھی بنادیا۔ 14سالوں بعد اس کے دفاتر سیل کئے گئے اس کے مشکوک مدرسے کو بند کردیا گیا۔ خود مولانا مسعود اظہر اور ان کی تنظیم کے دوسرے رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ بھارت نے ان کے خلاف شاید کچھ شواہد فراہم کئے تھے اور حکومت پاکستان نے ان کی تصدیق کے بعد ہی کارروائی کی ہوگی ورنہ وہ 14سالوں سے کیا کررہے تھے۔ پاکستان کے عوام کو کچھ نہیں معلوم نہ ہی حکومت اور حکومتی اداروں نے لوگوں کو ان کی سرگرمیوں سے متعلق آگاہ کیا تھا جب سے وہ بھارت کی قید سے رہا ہوکر آگئے تھے اور کوئٹہ سے آناً فاناً غائب ہوئے تھے اور حیرانگی کی بات یہ تھی کہ بعض واقعات کی تصدیق مولانا مسعود اظہرنے اخباری بیانات میں بھی کی تھی اور شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان واقعات میں ان کا یا ان کے ساتھیوں کا ہاتھ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہمارے ملک کو دہشت گردوں کی کیا ضرورت ہے۔ کیا وہ حملہ کی صورت میں ملک کا دفاع کرسکتے ہیں یا کشمیر ہمیں فتح کرکے دے سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں جواب نہیں میں ہے تو دہشت گردوں کی ہمت افزائی کون کررہا ہے، کیوں کررہا ہے؟ ہم دشمن کے لئے خودجواز پیدا کررہے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کے خلاف کارروائی کرے یا بین الاقوامی برداری کی جانب سے ہم پر اور ہمارے ملک پر اقتصادی اور دوسری پابندیاں لگوانا چاہتے ہیں پہلے تو حکومت اس کا جواب دے کہ مولانا مسعود اظہر اور ان کی تنظیم کے خلاف 14سالوں تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ وزیر داخلہ عوام اور اسمبلی کے سامنے اس کا جواب دیں تاکہ ہمارا ملک جوابی کارروائی سے محفوظ ہو۔ خصوصاً ہم پر اقتصادی اور دوسری پابندیاں نہ لگیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک کو محفوظ تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے اندر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی جائے خصوصاً افغانستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے خلاف کیونکہ یہ سب ملک کی سالمیت کے لئے شدید خطرہ ہیں۔ کوئٹہ میں خودکش دہشت گرد نے حملہ کرکے 15پولیس اہلکاروں کو شہید کیا اور 25دوسروں کو زخمی کیا پہلے تو حکومت بتائے کہ دہشت گرد خودکش بمبار کون تھا، آیا وہ افغان باشندہ تھا یا نہیں۔ گزشتہ واقعات میں افغان باشندے یا مدارس کے طلباء خودکش بمبار تھے اگر یہ بھی افغان باشندہ ہے تو افغانوں خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کو ملک کے اندر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ان کو فوری طور پر اپنے ملک واپس بھیجا جائے۔ اگر افغان حکومت ان کو واپس لینے کے لئے تیار نہیں ہے تو بین الاقوامی برادری ان کو افغان سرزمین پر مہاجر کیمپوں میں رکھے تاوقتیکہ وہ سب خود اپنے گھروں کو واپس نہ چلے جائیں۔ کم سے کم انکو پاکستان سے نکالا جائے جیسا کہ کینیا نے صومالی مہاجرین کے ساتھ کیا اور صومالیہ کے اندر ان کو کیمپوں میں بھیج دیا ۔ بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ اس اسکیم میں مداخلت نہ کریں بلکہ ان کو افغان سرزمین پر کیمپوں میں رکھا جائے۔