|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نواب امان اللہ خان زہری ، غلام نبی مری ، میر عبداللہ جان مینگل نے اپنے جاری کردہ مشترکہ بیان میں بلوچستان کی ساحل وسائل حق ملکیت اور گوادر پورٹ اور میگا پروجیکٹ کو بلوچ عوام اور بلوچستان کے حوالے کرنے کے موضع پر دس جنوری کو اسلام آباد میں اے پی سی کانفرنس میں ملک کے تمام سیاسی جماعتو ں سول سوسائٹی اور میڈیا کی بھر پور شرکت اور ان اہم موضع پر بلوچ عوام کی خدشات اور تحفظات کو مکمل طور پر اتفاق کرنے پر پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو کامیاب اے پی سی منعقد کرانے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں کہا کہ اس اہم اہمیت کے حامل کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کی بھر پور شرکت اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کہ بی این پی حقیقی معنوں میں یہاں کے عوام کی ساحل وسائل اور گوادر میگا پروجیکٹ پر بلوچ عوام کی واق و اختیار ترقی و خوشحالی کیلئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ہرگز ترقی کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اکسیوں صدی میں کوئی بھی ذی شعور انسان تعلیم صحت اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کے تمام تر سہولیات سے انکار نہیں کرسکتا لیکن بلوچستان میں ماضی کے میگا پروجیکٹس یہاں کے عوام کیلئے ترقی کی بجائے استحصال کا سبب بنے ہیں ایک طرف ہمارے وسائل کو نہایت ہی بے دردی سے لوٹا گیا ، تو دوسری طرف اس نارواپالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے بلوچ فرزندوں کو ظلم و ستم قتل وغارت گری قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا پارٹی نے گوادر کے میگاپروجیکٹ کیلئے ایک حصولی موقف اختیار کیا ہوا ہے جو گذشتہ تیس سالوں سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ حکمرانوں کلو یہاں کے عوام کی ترقی وخوشحالی روز گار اور دیگر سہولیات زندگی فراہم کرنے سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ صرف اور صرف یہاں کے ساحل وسائل کو اپنے دست رست میں لا کر بلوچوں کو اپنے مادر وطن سے بے دخل کرنے اور اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ایسے ترقی ہمیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے جو ہمارے تشخص زبان وجود ثقافت اور اس بڑھ کر ہم اپنے مادر وطن میں اجبنی بن کر دربدر ٹھوکریں کھاسکے انہوں نے کہا کہ گوادر کی اہمیت ایک میگا پروجیکٹ چائنا سمیت دنیا کی تمام نظریں اس بندگاہ پر لگے ہوئے ہیں کیونکہ اقتصادی اور عسکری حوالے سے گوادر اہمیت حامل ہے انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی گوادر کی ترقی کے متعلق قول و فعل میں تضاد ہے وہ ایک طرف ترقی کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن دوسری طرف آج بھی گوادر کے شہری صاف پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور نہ وہاں گوادر کے عوام کو ٹیکنیکل طور پر تیار کیا جارہا ہے ، کیونکہ آج بھی گوادر میں کوئی بھی میرین یونیورسٹی ، اور دیگر ٹیکنیکل کالجز موجود نہیں بلوچ عوام کے خدشات کو تحفظات کو دور کئے بغیراور گوادر کے تمام اختیارات بلوچستان کے عوام کے حوالے کئے بغیر یہ ترقی ناممکن ہے ۔کیونکہ جب ٹیکنیکل لوگ دیگر صوبوں سے آئینگے تو خدشہ یہی ہے کہ گوادر کے عوام مکمل طور پر اقلیت میں بدل جائینگے ، لہذا باہر سے آنے والے افراد کو شناختی کارڈز لوکل سرٹیفکیٹ پاسپورٹ اور الیکٹرونک ووٹ کی سہولیات سے پابندی عائد کیا جائے ۔