دی لانسٹ کے ایڈیٹرز رچرڈ ہورٹن اور ادانی سماراسکیرا کے مطابق ’اصل خوفناک حقیقت یہ ہے کہ مردہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 13 لاکھ بچے ڈلیوری کے بعد موت کے منہ میں جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس حقیقت کو ایک عالمی اسکینڈل کے طور پر اٹھایا جانا چاہیے کہ ڈلیوری کے وقت یہ بچے زندہ ہوتے ہیں، لیکن پیدائش کے چند گھنٹوں میں ہی بنیادی سہولیات مہیا نہ ہونے کے باعث وہ موت کا شکار ہوجاتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مردہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 10 فیصد بچوں کی موت ماؤں کی غذائی قلت یا خراب طرز زندگی جیسے موٹاپا یا سگریٹ نوشی اور مختلف بیماریوں جیسے ذیابیطس، سرطان یا دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث ہوتی ہے۔
دی لانسٹ کے مطابق آئس لینڈ وہ ملک ہے جہاں مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے کم ہے اور یہاں ایک ہزار میں سے اوسطاً 1.3 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
مردہ بچوں کی پیدائش میں دوسرا نمبر ڈنمارک کا ہے جہاں یہ شرح 1.7 ہے۔
اس کے علاوہ سب سے کم مردہ بچوں کی پیدائش والے ممالک کی فہرست میں فن لینڈ، ناروے، نیدرلینڈز، کروئیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، پرتگال اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
‘مردہ بچوں کی پیدائش میں پاکستان سرفہرست’
وقتِ اشاعت : January 19 – 2016