ایران اور سعودی عرب کے رہنماؤں نے پاکستان کے ثالثی کو سراہا ہے اور اس کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے پاکستانی فوج کے سربراہ کے ہمراہ سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا جہاں پر انہوں نے ان ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کی تاکہ دو برادر ممالک کے درمیان کشیدگی کو ختم کیا جائے۔ خصوصاً ’’سرد جنگ‘‘ کو مکمل جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیا جائے ۔ یہ پاکستان کی حکومت اور عوام کی خواہش ہے ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ نہ ہو اس دورے کے اثرات بعد میں ظاہر ہوں گے جب یہ معلوم ہوجائے گا کہ دونوں ممالک کے رہنما ء پاکستان کے ثالثی کی پیشکش کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے واضح جواب دیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔ اگر سعودی حکمرانوں کی خواہش ہوئی کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافہ نہ کیا جائے اور اس کو ’’سرد جنگ‘‘ کے حد تک رہنے دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں سعودی عرب کے اتحادی اس کی مخالفت کریں۔ جنگ کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کیونکہ ایران اقتصادی پابندیوں کے بعد اپنے عوام کو زیادہ سہولیات اور راحتیں فراہم کرنا چاہتا ہے خصوصاً معاشی نقطعہ نظر سے تاکہ ان کی تکالیف میں کچھ کمی لائی جائے اور ملک اقتصادی طور پر زیادہ تیز رفتاری ترقی کی طرف گامزن ہو اور اس کو معاشی ترقی کے لحاظ سے یورپی ممالک کا ہم پلہ بنایا جائے۔ اس وجہ سے ایران جنگ کا مخالف ہے۔ کم سے کم ایران جنگ کی ابتداء نہیں کرے گا۔ اقوام متحدہ امن مذاکرات کے ذریعے شام، یمن اور عراق کے معاملات حل کرنا چاہتا ہے خطے میں کشیدگی کی بنیادی وجہ شیعہ عالم دین کی پھانسی تھی جس طرح ایران کا ردعمل انتہائی سخت تھا اور مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے اور کونسل خانے کو آگ لگادی۔ ایران نے ان ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جنہوں نے سعودی سفارت خانے ا ور کونسل خانے کو آگ لگائی تھی اور ممکن ہے کہ ان کے ساتھ جلد انصاف بھی ہو۔ بہر حال طرز عمل کا دارومدار سعودی حکمرانوں پر ہے کیونکہ وہ ابھی تک یمن میں بمباری کررہاہے۔ اس میں یہ خطرہ لگارہے گا کہ یمن کی جنگ مزید پھیل نہ جائے اور حوثی قبائل سعودی علاقوں پر حملے نہ کریں۔ ایسی صورت میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ایران کے خلاف جوابی کارروائی کرسکتے ہیں جس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ ایسی صورت میں امریکہ اور ناٹو افواج بھی اس جنگ میں شامل ہوسکتی ہیں۔ ظاہر ہے مکمل جنگ کی صورت میں پاکستان غیر جانبدار نہیں رہے گا اپنے مفادات اور اپنے ملک کو بچانے کے لیے اس جنگ میں ضرور شامل ہوگا چاہے پاکستانی رہنما ء اور فوج کے سربراہ ثالثی کی کوششیں کرتے رہیں۔ ان ملاقاتوں میں پاکستانی رہنماؤں نے یہ ضرور اندازہ لگایا ہوگا کہ ایرانی اور سعودی حکمران کیا سوچتے ہیں اور آئندہ ان کا طرز عمل کیسا ہوگا یہ سب باتیں پاکستانی رہنماؤں کی حد تک محدود رہیں گی اور سیاسی اور عسکری قیادت مل کر ایک ہی فیصلہ کرے گی جس کو عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔