|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2016

کوئٹہ: بی ایس او آزاد کی مرکزی ترجمان نے تربت،چمالنگ،پنجگور،سوئی،بارکھان،گیشکور،کولواہ بزداد سمیت بلوچستان بھر میں کاروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا فورسز بلوچستان میں اپنی تسلط کو مستحکم کرنے کیلئے بلوچستان میں عام آبادیوں کو نشانہ بنارہی ہے ۔ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں فورسز خود کو تمام انسانی حقوق عالمی کی قوانین سے بالاتر سمجھ کر انتہائی ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہے ،گذشتہ روز بارکھان ،پروم،کیچ کے مختلف علاقوں،سوئی،چمالنگ و آواران گیشکور میں بلوچ عوام کو فورسز نے نشانہ بناکر کئی لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ آواران کے علاقے بزداد میں ایک دفعہ پھر فورسز نے آپریشن کرکے متعدد گھروں جلا دیا ،ترجمان نے کہا ریاستی اپنی عسکری قوت کے ساتھ ساتھ کئی عرصے سے بلوچستان میں مذہبی قوتوں کو بھی سرگرم کر چکا ہے ،کیونکہ ریاست انہی کی سرپرستی میں یہاں اپنے جڑیں مضبوط کرنے کے درپے ہے ، بلوچ سیکولر سماج میں مذہبی انتہاء پسندی اور عدم برداشت جیسے رجعتی رجحانات کو پھیلا کر انتہاپسندی کے زریعے بلوچ معاشرے کو مذہبی تنگ نظری کی طرف دکھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔بلوچ نوجوانوں میں قوم پرستی و ترقی پسندانہ سوچ کوختم کرنے کے لئے ریاست مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر بلوچ سماج پر آزما رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست بلوچستان میں ایک طرف سے اپنے قبضے کو طول بخشنے کیلئے بلوچ نسلی کشی میں روز بہ روز اضافہ کررہی ہے تو دوسری طرف اپنے نو آبادیاتی استحصالی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے یہاں چین سمیت دوسرے بیرونی ممالک سے بلوچ کے منشاء و مرضی کے برخلاف ایسے معاہدات کرچکاہے جو بلوچستان میں آباد بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے اور ہزاروں سالوں سے مقیم بلوچوں کو ان کی سرزمین سے بیدخلی کے مترادف ہیں۔ ۔ترجمان نے عالمی میڈیا و اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اُٹھانے والے انہی اداروں کی بلوچستان میں بلوچ سرزمین پر بلوچ نسل کشی کو نظر انداز کرنے کی پالیسیاں مزکورہ اداروں کی غیر جانب دار حیثیت پر سوالیہ نشان ہیں۔انہوں نے کہا کہ ا نسانیت کا پرچار کرنے اورانسانی حقوق کے متعلق قوانین پر عملدرآمد کروانے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے ادارے تمام تر صورتحال جاننے کے باوجود مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔ اگر ان اداروں نے اپنی خاموشی کا رویہ برقرار رکھا تو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سنگین حد تک پہنچ سکتی ہیں۔