|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2016

ایک بار پھر خوانخوار دہشت گردوں نے بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ ایک سال قبل انہوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کو نشانہ بنایا تھا جس میں 150سے زائد طالب علم اور اسٹاف کے اراکین شہید ہوئے تھے۔ تحریک طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد انہوں نے باچا خان یونیورسٹی کیمپس کو نشانہ بنایا جس میں پروفیسر حامد سمیت 22افراد شہید ہوئے جن میں اکثریت طلباء کی تھی دونوں حملوں کا ماسٹر مائنڈ منصور تھا۔ سیکورٹی افواج نے چاروں دہشت گردوں کو موقع پر ہی ہلاک کردیا۔ اس بار پھر دہشت گردوں نے افغانستان کی سرزمین اور اس کے فون کے نظام کو استعمال کیا اور دہشت گردوں کو تمام ہدایات افغانستان سے ملتی رہیں جن پر وہ عمل کرتے رہے۔ سیکورٹی اداروں نے فون کالز کا پتہ لگایا جو افغان سرزمین سے کی گئیں۔ واردات کے خاتمہ کے بعد تحریک طالبان کے ایک دہشت گرد دھڑے نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی سرکاری ذرائع نے یہ پتہ چلالیا کہ یہ سب کارروائی افغانستان کے اندر تیار ہوئی اور اس پر چارسدہ میں عملدرآمد کیا گیا جیسا کہ آرمی اسکول پشاور میں کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گزشتہ منصوبہ پر دوبارہ عملدرآمد کرکے اسکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ بات افسوسناک ہے کہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں نے استعمال کیا۔ ادھر سیکورٹی اداروں اور پولیس نے چار سہولت کاروں کو گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں کو تمام تر سہولیات فراہم کیں تھی۔ بعض ذرائع نے یہ بات یقین کے ساتھ کہی ہے کہ افغان سیکورٹی ادارے کے سربراہ اس میں براہ راست ملوث ہیں۔ رحمت اللہ نبیل کا نام لیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ اس کا تھا اور اس پر طالبان دہشت گردوں کے ذریعے عمل کروایا گیا خصوصاً طالبان دہشت گرد رہنما عمر منصور کے ذریعے۔ یہ بھی اخباری اطلاعات ہیں کہ اس کے لئے 30لاکھ افغانی رقم ادا کی گئی یہ سب کچھ بھارت کی ایماء پر افغانوں نے کیا اور افغان سرزمین استعمال کی گئی۔ واقعہ کے فوری بعد پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے حکومت افغانستان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان نامزد دہشت گردوں کو تلاش کیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت پاکستان نے باضابطہ طو رپر اس جگہ کی نشاندہی کی ہے جہاں پر دہشت گرد موجود ہیں اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ پاکستان حکومت کی یہ توقعات جائز ہیں کہ افغانستان اور امریکہ ان کے خلاف مشترکہ کارروائی کریں کیونکہ یہ عناصر پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اگر حکومت افغانستان اس بات پر راضی ہوجائے تو پاکستانی افواج افغان قومی آرمی سے مل کر ان دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرسکتی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور دہشت گردی بند نہ ہوئی تو مجبوراً پاکستان کو ان دہشت گردوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کا حق حاصل ہوگا۔ یہ حکومت پاکستان کی مرضی ہوگی کہ اس حق کو استعمال کیا جائے یا نہیں۔ بہر حال امریکہ اور حکومت افغانستان تک حکومت پاکستان کی شکایات پہنچادی گئی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے براہ راست یہ شکایات افغان صدر اشرف غنی، امریکی نائب صدر جو بائڈن اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ایک ملاقات میں کردی ہیں۔ امید ہے کہ حکومت افغانستان اس پر کارروائی کرے گی اور پورے خطے کے امن کا تحفظ کرے گی اور دہشت گردی کا صفایا کرے گی۔