چار سدہ واقعہ کے بعد سیکورٹی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ دہشت گرد ی کی منصوبہ بندی افغان سرزمین پر ہوئی اور وہاں سے ہی اس کو کنٹرول کیا گیا اور دہشت گردوں کو ہدایات جاری کی گئیں۔ عمر منصور طالبان کے ایک کمانڈر نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وہ آج کل افغانستان میں ہے اور اس کا تعلق ملا فضل اللہ سے ہے۔ ملا فضل اللہ سوات آپریشن کے دوران فرار ہوکر افغانستان چلے گئے اور عمر منصور ضرب عضب کے دوران افغانستان گئے۔ پہلے عمر منصو رنے آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردانہ حملہ کیا جس میں 150کے قریب طلباء اور اسٹاف کے اراکین شہید ہوئے۔ اب کی بار انہوں نے باچا خان یونیورسٹی کے کیمپس چارسدہ کو نشانہ بنایا جہاں پر 22طلباء اور دوسرے لوگ شہید ہوئے اور 50سے زائد زخمی ہوئے جن میں اکثریت کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔اس واقعہ کے بعد عسکری قیادت نے افغان رہنماؤں اور عسکری کمانڈروں اور ناٹو کے کمانڈر کو یہ ثبوت فراہم کردیئے تھے کہ حملہ کا منصوبہ افغانستان میں تیار کیا گیا اور اس کو کنٹرول اور احکامات افغانستان سے ملے۔ سیکورٹی اداروں کے فون اور سم افغانستان کے استعمال ہوئے۔ دوسرے الفاظ میں ناقابل تردید ثبوت افغان اور امریکی عسکری قیادت کو فراہم کر دی گئیں۔ اس کا ردعمل کابل کی جانب سے یہ آیا ہے کہ افغان سرزمین چارسدہ کے دہشت گردوں کے واقعہ میں استعمال نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس کو کنٹرول اور رہنمائی افغان سرزمین سے کیا جارہا تھا۔ دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد بھی افغانستان سے ان کے لئے فون آتے رہے اور فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ تاہم افغان صدارتی محل کے ایک ترجمان نے اس کی تردید کی اور انکار کیا کہ دہشت گردی کے واقعہ کو افغان سرزمین سے کنٹرول کیا گیا۔ اس تردید کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگائے ہیں۔ حالانکہ افغان حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ یہ کہتے کہ وہ ان تمام واقعات اور الزامات کی تحقیقات کررہے ہیں۔ مگر انہوں نے یک لخت ان تمام الزامات کو رد کردیا۔ دوسرے الفاظ میں افغانستان نے ملک میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اب امریکہ کا رویہ دیکھنا ہے کہ امریکی اپنے ڈرون طیارے ان دہشت گردوں کے خلاف بھی استعمال کریں گے یا نہیں جو آرمی پبلک اسکول پشاور اور باچا خان یونیورسٹی کے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہیں۔ اگر یہ حملے ہوتے ہیں اور ان کے ٹھکانے تباہ ہوتے ہیں تو اس بات کی پاکستان کے عوام اور حکومت کو یقین ہوگی کہ آئندہ پاکستان پر دہشت گردی کے حملہ افغانستان سے نہیں ہوں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں امریکہ اور افغانستان ان واقعات میں ملوث تصور کئے جائیں گے جس کے بعد پاکستان کی حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کا پیچھا کرے خواہ وہ افغانستان میں کیوں نہ ہوں اور ان کا صفایا کیا جائے۔ ضرب عضب کی کامیابی کی یہ نشانی ہے کہ اب پاکستان پر دہشت گردانہ حملے افغانستان سے ہورہے ہیں۔
پاک افغان تعلقات کشیدگی کی طرف
وقتِ اشاعت : January 25 – 2016