گوادر میں پینے کے پانی کی طویل قلت نے حکومتی وعدے کا بھانڈا پھوڑدیا ہے کہ گوادر اور اس کی بندرگاہ مستقبل قریب میں پاکستان کو معاشی مشکلات سے نجات دلائے گا۔ پاکستان میں شمولیت کے وقت سے لے کر آج تک حکومت نے گوادر میں پانی کی قلت حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان نیوی کے بحری جہاز گوادر کے شہریوں کو پینے کا پانی پہنچانے کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے گوادر کی آبادی میں اضافہ نہیں ہوا وجہ یہ تھی کہ یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر کبھی نہیں رہا اور یہاں سے آبادی کا انتقال ہوتا رہا۔ کراچی، مکران کے آباد علاقوں، مسقط، اومان اور گلف کے دوسرے ملکوں میں گوادر کے لوگ ہجرت کرتے رہے۔ حکومت پاکستان نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ آبادی کے انتقال کو روکے اور مقامی آبادی اور اس کے قرب و جوار کو پینے کا پانی فراہم کیا جائے، صرف پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک درمیان میں آئی اور اس نے انکاڑہ کور ڈیم کی تعمیر کے اخراجات ادا کئے۔ چند سالوں کے لئے پانی کا مسئلہ حل ہوا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے یہ پابندی لگائی تھی کہ پانی صر ف پینے اور گھریلو استعمال کے لئے ہوگا اس کا تجارتی یا صنعتی استعمال نہیں ہوگا۔ بعض حکومتوں نے یہ کوشش ضرور کی کہ انکاڑہ کور ڈیم کا پانی ماہی گیری کی صنعت میں استعمال ہو مگر ایشیائی ترقیاتی بینک اور مقامی پریس کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہوگئی۔بعد ازاں انکاڑہ کور ڈیم ناکام ہوگیا اس کی وجہ وفاقی حکومتی ادارے میں زبردست کرپشن تھا، اس کا ڈیزائن غلط تھا، اس میں خامیاں تھیں جس کی وجہ سے ڈیم ریت سے 10سال کے اندر بھر گیا اور اس میں پانی جمع کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔تما م شعبوں میں کرپشن عروج پر تھا کم ترین معیار کے پائپ استعمال کئے گئے۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت نے اس ڈیم کی بحالی کے لئے کسی قسم کی کوشش نہیں کی، اس کو مکمل طور پر ضائع ہونے دیا گیا۔ اگر ٹریکٹر استعمال کرکے ریت باہر نکالا جاتاتو یہ ڈیم ابھی تک گوادر کی کسی حد تک ضروریات پوری کرسکتا تھا۔ مگر صوبے اور ملک کے حکمرانوں کو گوادر کے عوام کو پانی فراہمی میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ حکمرانوں کے ذاتی خواہشات اور ہوس دولت اتنی زیادہ ہے کہ انہوں نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی۔ اب جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ گوادر پاکستان اور اس کے 20کروڑ عوام کی تقدیر بدل دے گا۔ گوادر جہاں پر پینے کا پانی نہیں ہے، دور دراز سے ٹینکروں کے ذریعے اور بحری جہازوں کے ذریعے پینے کا پانی پہنچایا جارہا ہے۔ صنعت، تجارت اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لئے پانی کہاں سے آئے گا۔ 10سال قبل کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دو پلانٹ لگائے گئے ان پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ ان سے آج دن تک ایک لیٹر پانی حاصل نہ ہوسکا دونوں سابق وزیر آزاد ہیں۔ نیب اندھا ہے اس کو دونوں سابق وزراء نظر نہیں آرہے جنہوں نے مشین اور مشینری تعمیراتی کام شروع ہونے سے قبل باہر سے درآمد کرلی تھی۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ساحل مکران پر تمام دریاؤں پر بڑے اور چھوڑے ڈیم تعمیر کئے جائیں خصوصاً دریائے دشت پر سنٹ سر کے مقام پر دوسرا ڈیم تعمیر کیا جائے جو صرف گوادر اور اس کے قرب و جوار کی ضروریات پوری کرے۔ اس کے بعد ہی حکمران گوادر کا ڈھول پیٹنا شروع کریں اس سے قبل نہیں کیونکہ گوادر کے لوگوں کو پینے کا پانی نہیں مل رہا ہے۔ ایک ٹینکر کی قیمت صرف 15ہزار روپے ہے۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت گوادر اور اس کی ترقی کے لئے جھوٹ بولنا بند کردے۔