باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد طالبان نے اس بات کا باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ وہ آئندہ تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں 22افراد جن میں زیادہ تر طالب علم تھے شہید ہوئے تقریباً 50کے قریب زخمی بھی ہوئے۔ طالبان کے اس اعلان کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں میں حفاظتی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی ایک دن کھلنے کے بعد دوبارہ غیر معینہ مدت کے لئے بند کردی گئی اس کی وجہ سیکورٹی کا ناقص انتظام بتایا گیا۔ بڑی تعداد میں طلباء یونیورسٹی نہیں گئے شاید خوف اور ڈر کی وجہ سے کہیں دہشت گرد دوبارہ حملہ نہ کریں۔ یہی صورت حال پورے کے پی کے اور بلوچستان میں پیدا ہوگئی ہے خصوصاً کوئٹہ اور اس کے شمالی علاقوں میں جہاں پر طالبان کا کچھ اثر بتایا جاتا ہے یا بقول کوئٹہ شوریٰ کے دہشت گرد موجود ہیں۔ باقی بلوچستان کے تمام علاقے، سندھ اور پنجاب محفوظ ہیں جہاں پر طالبان کی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی دیتی۔ اس کے لیے حکومت کو کے پی کے اور بلوچستان کے شمالی علاقوں میں سیکورٹی کے بہتر انتظامات کرنے پڑیں گے بشمول کوئٹہ شہر جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان تمام علاقوں سے افغان باشندوں کو فوری طور پر نکالا جائے خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کو پہلے نکالا جائے اور افغان مہاجرین کو ان کے کیمپوں تک محدود کیا جائے اور ان سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ سب سے اہم ترین نقطہ افغان غیر قانونی تارکین وطن کا ہے ،یہی لوگ ہیں جو ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔یہ کرایہ کے لوگ ہیں دشمن ان کو بڑی تعداد میں استعمال کررہا ہے اس لئے ان کو تمام حساس علاقوں سے نکالا جائے اور ممکن ہو تو جلد سے جلد ان کو ملک بدر کیا جائے تاکہ دشمن کے ہاتھ کرائے کا فوج نہ آئے اور پاکستان مجموعی طور پر محفوظ رہے خصوصاً ہمارے تعلیمی ادارے۔ میڈیا کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کرنی چاہئے کہ دہشت گردوں کو کسی قسم کی امداد پہنچانے والا خصوصاً وہ لوگ جو ان کو پناہ دیتے ہیں اپنے گھروں میں رکھتے ہیں ان کو دہشت گردی کے مقام تک پہنچاتے ہیں ان کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتے ہیں سب کے سب پاکستان کے قوانین کے تحت سزائے موت کے حقدار ہیں نہ صرف دہشت گرد بلکہ ان کے تمام سہولت کار سزائے موت کے حقدار ہیں اس قانون کی پبلسٹی کے بعد کوئی مقامی آدمی اس بات کی جرات نہیں کرے گا کہ وہ آئندہ کسی دہشت گرد کا سہولت کار بن جائے یا اس کو اس کے جرم میں امداد فراہم کرے۔ اگر حکومت پاکستان ملک بھر سے غیر قانونی تارکین وطن خصوصاً جن کا تعلق افغانستان سے ہے کے خلاف کارروائی کرے اور ان کو ملک بدر کرے تو صورت حال میں کافی بہتری آسکتی ہے اور لوگوں کا سیکورٹی فورسز پر اعتماد بڑھ جائے گا۔ تاہم بلوچستان کے ان علاقوں میں سیکورٹی کے بہتر انتظامات کیے جائیں جہاں سے طالبان تعلیمی اداروں پر دہشت گردانہ حملہ کرسکتے ہیں۔