|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے ایک مذمتی بیان میں کہا ہے کہ مردم شماری کا مرحلہ جو مارچ سے شروع ہونا ہے اس میں ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین خاندانوں کو شامل کرنااورنادرا کے ارباب اختیار کی جانب سے اپنے ہی رپورٹ میں یہ کہنا کہ بلوچ علاقوں کے ساٹھ فیصد لوگوں کو شناختی کارڈز کا اجراء اب تک ممکن نہیں بنااور بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیرمردم شماری کروانا کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچ اپنے ہی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل ہواس سے پہلے تو مختلف طریقوں سے بلوچوں کی نسل کشی اپنے ہی سرزمین میں ان کی معاشی استحصال اورہرطبقہ فکر کو ناانصافیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر حکمران جو دعوئے کرتے ہیں اگر یہ عمل کرکے دکھاتے کہ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا تاکہ ان کے احساس محرومی اور احساس محکومیت کا خاتمہ کسی حد تک ممکن ہوتا تو یہ سمجھ آتی کہ اس ملک کے ارباب اختیار بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں بلخصوص موجودہ 2013ء کے جعلی قیادت جو بلوچستان میں اقتدار پر برجمان ہوئی انہوں نے مزید بلوچوں کے ہر طبقہ فکر کو مشکلات مسائل و مصائب سے دوچار کیا اور بلوچوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہونا ایک فطری عمل ہے پارٹی جو ایک جمہوری قومی بلوچوں کی سب سے بڑی جماعت ہے اس کی کوشش ہے کہ بلوچستان کے جملہ مسائل حل ہو اور ماضی میں جوبھی ناانصافیاں استحصال اور جو محرومیوں سے بلوچوں کو دانستہ طورپر دوچار کیا گیا تھا اس کا خاتمہ یقینی ہے لیکن موجودہ حکمرانوں نے سیاست میں تنگ نظری اور بے انصافیوں کا ناختم ہونے والے سلسلے کو برقرار رکھا آج اکسیوں صدی میں بلوچ علاقے جو وسائل سے مالا مال سرزمین کے مالک ہے آج بھی نان شبینہ کے محتاج ہے تعلیم صحت اور بنیادی ضروریات زندگی نہ ہونے کے برابر ہے بلوچستان کے اکثریتی بلوچ علاقے نوجوان آج بھی بیروزگاری غربت افلاس اور جہالت کے ذریعے انھیں مزید پسماندہ اور بدحال رکھا جارہا ہے دانستہ کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچ علاقوں کے ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے برابر ہے مختلف انداز میں سرکاری ادارے بلوچوں اپنے ہی سرزمین میں معاشی اور معاشرتی استحصال کا شکار بنانے سے پیچھے دکھائی نہیں دیتے پارٹی ایک قومی جمہوری سیاست سے وابستہ نظریاتی فکر اور سوچ کی سیاست کررہی ہے ہماری جدوجہد کا محور و مقصد بھی یہی ہے کہ ہم بلوچستان میں اپنے عوام کے جملہ مسائل کے حل اور اپنی بقاء زبان اور ثقافت اور تہذیب و تمدن کی خاطر ہمہ وقت جدوجہد کررہے ہیں اور ہم اس جدوجہد کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں اس میں کوئی قباد نہیں ہم اپنی سرزمین کی قومی معاملات اجتماعی مسائل پسماندگی بدحالی اپنے ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کی دفاع کریں کیونکہ سرزمین نوہزار سالوں سے ہمارے آباؤ اجداد کی سرزمین اور ہمارے آباؤ اجداد نے سامراجوں کا جامعہ مردی کے ساتھ مقابلہ کرکے اپنی سرزمین کی بقاء قومی تشخص کی جدوجہد کی اورہر دور میں قربانیاں دی لیکن کبھی بھی اپنے موقف ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ذریعے تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا انہوں نے کہا کہ2016ء کی مردم شماری کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرینگے کیونکہ ملکی قوانین اور بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے منافی کے مترادف ہیں کہ ساڑھے پانچ لاکھ افغانوں کی موجودگی میں جو نادرا کے ذریعے پاسپورٹ آفیس کے ذریعے اور دیگر دستاویزات پیسوں کے عیوض ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین میں ان کی آباد کاری کی گئی جو چالیس لاکھ کے برابر ہیں آج انھیں باعزت طریقے سے افغان بھائیوں کو اپنے وطن واپس بھیجے بغیر یہاں پر مردم شماری کروانا ناانصافیوں غیر قانونی اور بلوچوں کے ساتھ مرکز اور ارباب اختیاران کی کھلم دشمنی کے مترادف عمل ہوگا ایک جانب مرکزی حکومت پنجاب خیبر پختونخواہ سندھ حکومت ان کی انخلاء کے حوالے سے پالیسیاں مرتب کرچکے ہیں کہ انھیں باعزت طریقے سے بھیجا جائے اور واضح موقف ان کیلئے اپنائی ہے اور بلوچستان حکومت اور اس کے اتحادی آج بھی بلواستہ یا بلاواستہ ہر جگہ پر ان کی بلاک شدہ شناختی کارڈز کے اجراء ان کی آباد کاری اور مکمل ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے تاکہ اپنی سیاسی مفادات کا حصول ممکن ہو انہوں نے کہا کہ آج بھی بلوچستان اور بلوچوں کے ساتھ رورا معیار اختیار کیا جارہا ہے ہمیں اپنے ہی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے کھلم پالیسی اپنائی جارہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مردم شماری اس وقت کرائی جاتی جب بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی مکمل انخلاء کی جاتی خود حکومت اورسینیٹ کے داخلہ کے قائمہ کمیٹی بھی یہ کہہ چکی ہے کہ یہاں پر لاکھوں افغان مہاجرین کو بلوچستان میں شہریت دی گئی ہے اس کے باوجود مرکزی ادارے اس بات کو بارہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین کو شناختی کارڈزکا اجراء ہوا ہے اس کے باوجود مردم شماری کروانا کیا بلوچ دشمنی نہیں کیا بلوچوں کو اپنے ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کو ملیا میٹ کرنے کے مترادف نہیں؟