وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے ان خواہشات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ قریبی معاشی اور تجارتی تعلقات استوار کئے جائیں تاکہ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچے ۔گزشتہ نصف صدی سے ایران نے معاشی اور تجارتی میدان میں پیشکش کی تھی مگر پاکستانی حکمرانوں نے اس کا جواب انتہائی سرد مہری سے دیا تھا۔ ابھی تک ان کے رویے میں تبدیلی کے آثار نہیں ہیں کہ ایران سے معاشی اور تجارتی تعلقات استوار اور مضبوط کرنے میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ہی فائدہ ہے بلکہ ایران کی نسبت پاکستان کا فائدہ زیادہ ہے دوسرے الفاظ میں ایران کا کم۔ شاید ایران صرف اچھے تعلقات کی بحالی کی خاطر پاکستان سے زیادہ گہرے معاشی اور تجارتی تعلقات چاہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1980 کی دہائی میں ایران نے جب ایرانی بلوچستان کی تمام اہم ترین سڑکیں تعمیر کرلیں اور ان کی مشنری، افرادی قوت بے کار بلوچستان کے سرحد پر موجود تھی تو ایران نے یہ پیشکش کی تھی کہ ایران کی حکومت پاکستانی بلوچستان کی تمام اہم ترین سڑکیں، خصوصاً جواس کے سرحد کے نزدیک ہیں تعمیر کرے گا اور اس کے لئے صرف 30فیصد ڈاؤن پے منٹ کیا جائے اور باقی آسان اور نرم شرائط پر قرض ہوگا۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی کرپٹ اور بدعنوان حکومت نے اس کو مسترد کیا کیونکہ اس سے بلوچستان کے عوام کو فائدہ ہو نا تھا،ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا کرپٹ اور بدعنوان عناصر کو رشوت نہیں ملتا اس لئے صرف ذاتی مفادات کی بنیاد پر اس پیشکش کو مسترد کردیا گیا اور آج دن تک بلوچستان کی تمام سڑکیں تعمیر نہ ہوسکیں۔ اسی طرح ایران کی طرف سے سرحدی تجارت کے فروغ کے لئے بارڈر مارکیٹ یا سرحدی منڈی قائم کرنے کی تجویز تھی۔ یہ منڈیاں بلوچستان کے تمام سرحدی علاقوں خصوصاً جو ایرانی سرحد پر واقع ہیں وہاں ان کو قیام میں لانا تھا۔ اس منصوبہ کو گزشتہ 30سالوں سے ناکام بنایا جارہا ہے تاکہ لوگ مفلوک الحال رہیں، غریب رہیں، ضرورت کی اشیاء ان کو نصیب نہ ہو اور اسمگلنگ زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ متعلقہ افسران اور حکمرانوں کی ناجائز آمدنی میں کمی نہ ہو۔ یہ سرحدی مارکیٹ 30سالوں بعد بھی موجود ہے۔ حال ہی میں ایک سرکاری ملازم ایران کے دورے پر گئے تھے اور انہوں نے اپنے افسرانہ ویٹو استعمال کیا اور ایرانیوں کو حکم دیا کہ وہ صرف چند ایک سرحدی منڈیاں قائم کریں، زیادہ نہ کریں۔ وہ ملازم نہیں بلکہ آقا بن کر ایران کے سرکاری دورے پر گیا تھا اور ایران کی حکومت پر اپنے احکامات صادر فرمادیئے۔ غالباً وہ کسٹم کے گریڈ 20کا ایک افسر تھا اس کو حق دیا گیا کہ وہ ایسے فیصلے کرے جس سے عوام کی بھلائی ممکن نہ ہو۔ اب وزیراعلیٰ شاید ایران کا دورہ کریں گے۔ ان کو ایران سے باضابطہ طور پر ایران آنے کا دعوت نامہ مل گیا ہے۔ اب یہ دفتر خارجہ کا کام ہے کہ کب یہ دورہ ہوگا تاکہ وزیراعلیٰ دو طرفہ تعلقات کو زیادہ مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس بات کا پہل کریں کہ دونوں بلوچستان کی معیشت کو مربوط بنائیں تاکہ وہ علاقائی منڈی کی شکل اختیار کرے۔
ایران سے معاشی اور تجارتی تعلقات
وقتِ اشاعت : January 29 – 2016