|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2016

آئے دن حکمران، خصوصاً سرکاری ملازمین بیانات دیتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے سرکاری خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا۔ ان بیانات کا مقصد ملک کے اندر جمہوری اداروں اور نظام کو کمزور کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ منتخب حکمرانوں کے اثر و رسوخ کو کم سے کم کیا جائے اور سرکاری ملازمین کو ریاستی معاملات میں اعلیٰ ترین کردار دیا جائے۔ سرکاری ملازمین کے بیانات پڑھنے کے بعد یہ صاف تاثر ملتا ہے کہ ملک میں آئین اور آئین کی بالادستی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، نہ ہی اس ملک کے منتخب عوامی نمائندے اس ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر وہ نہیں بدل سکتے تو کون بدلے گا؟ سرکاری ملازم۔۔۔ جہاں تک عوامی رائے کا تعلق ہے اس کے مطابق ملک کے صرف ایک یا دو فیصد سرکاری ملازمین کرپٹ نہیں ہیں۔ کرپشن سب سے زیادہ سرکاری ملازمین میں ہے۔ جب تک اس کا سدباب نہیں ہوتا ہے ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں پہلے کرپشن بہت کم تھی اور نہ ہونے کے برابر تھی۔ کیونکہ مقامی روایات اور عزت و احترام کی وجہ سے کرپشن سے نفرت کیا جاتا تھا۔ خصوصاً کرپٹ اور بدعنوان عناصر کی سماج میں کوئی عزت نہیں ہوتی تھی ان کو چور سے بھی بدتر تصور کیا جاتا تھا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد پنجاب کے افسران نے جو کرپشن کے جوہر دکھانے شروع کئے اور ہروہ سرکاری ملازم جوسندھ اور بلوچستان سے واپس پنجاب گیا وہ کروڑ پتی بن گیا۔ پہلے زمانہ میں لکھ پتی، حالیہ سالوں میں کروڑ پتی اور آج کل ارب پتی۔ اتنی دولت ہیروئن کی فروخت، اسمگلنگ اور دوسرے کاروبار میں نہیں ہے جتنی کہ سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال میں ہے۔ سرکاری اختیارات صرف سرکاری ملازمین کے پاس کے پاس ہوتے ہیں۔ یہی سرکاری ملازمین کرپٹ سیاستدانوں کو کرپشن کے داؤ پیچ سکھاتے ہیں۔ اب کرپشن شدت کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کی انتظامیہ میں موجود ہے۔ اس کو روکنے کا کام نیب اور ایف آئی اے نہیں کرسکتی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ ادارے معصوم یا کم گناہ کرنے والوں کو زیادہ پکڑتے ہیں اور جو کرپشن کے بانی ہیں ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ اکثر نیب اور ایف آئی اے کے افسران کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہوتا ہے اس لیے ان کی ہمدردیاں بلوچستان اور سندھ کے ساتھ نہیں ہوتے۔ نہ یہ معروف لوگ ہیں جو اپنی عزت کا خیال رکھیں۔ ان میں زیادہ کرپشن کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ان میں بعض افسران کی یہ ضرور خواہش ہوگی کہ وہ بھی ارب پتی یا کم سے کم کروڑ پتی بن کر واپس گھر جائے۔ مقامی افراد ہی کرپشن کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا صوبائی انتظامیہ زیادہ بھرپور کارروائی کرے اور نیب اور ایف آئی اے کو صرف اسلام آباد تک محدود کیا جائے تو یہ ملک کے مفاد میں ہوگا۔