کراچی: لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کو سندھ رینجرز نے گرفتار کرلیا.
رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق عذیر بلوچ کی گرفتاری کے لیے رات گئے کراچی کے مضافاتی علاقے میں ٹارگٹڈ کارروائی کی گئی، جس وقت لیاری گینگ وار کے سرغنہ کو گرفتار کیا گیا اس وقت وہ کراچی میں داخل ہو رہے تھے.
رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز—۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ عذیر بلوچ سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے.
واضح رہے کہ عذیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور ان پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔
عذیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، حکومت سندھ متعدد بار عذیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔
رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی تصویر—۔
پولیس کو مطلوب عذیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔
عذیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ خالی ہاتھ واپس آگئی تھی۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے گذشتہ برس اگست میں عذیر بلوچ کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عذیر بلوچ کو نہیں جانتے.
قائم علی شاہ کا کہنا تھا، ‘عذیر بلوچ کو دبئی میں گرفتار کیا گیا، پھر ہماری پولیس ٹیم اسے اپنی حراست میں لینے کے لیے وہاں گئی لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہوسکا. اب میں نہیں جانتا کہ وہ دبئی میں ابھی بھی گرفتار ہے یا اُسے رہا کیا جاچکا ہے’
عذیر بلوچ کو پاکستان واپس کب لایا گیا، اس حوالے سے اب تک کچھ واضح نہیں ہوسکا۔
عذیر نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔
رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی تصویر—۔
ارشد پپو، عذیر بلوچ کے کزن عبدالرحمٰن عرف عبدالرحمٰن ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔
عبدالرحمٰن اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔
عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عذیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمٰن ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔
اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عذیر نے ابتدائی طور پر رحمٰن کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمٰن کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
پولیس ان کاؤنٹر میں عبدالرحمٰن ڈکیت کی موت کے بعد عذیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔
غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عذیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔
رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی تصویر—۔
ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن عذیر بلوچ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کردیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔
ایک ہفتے یہ آپریشن ختم کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کو عذیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عذیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے منتخب کردہ امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔
تاہم اگر لیاری میں ان کی موجودگی کی بات کی جائے تو ذرائع کے مطابق اندرونی طور پر مستقل جاری لڑائیوں کے باعث یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور پیپلز امن کمیٹی کا اب کوئی وجود نہیں۔
عذیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے لیکن جو کارروائی انہیں انہیں منظر عام پر لے کر آئی وہ سپریم کورٹ کی جانب سے لیا گیا سوموٹو نوٹس تھا جو اعلیٰ عدلہ نے عذیر کے ارشد پپو قتل کیس میں ملوث ہونے پر لیا۔