|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2016

کوئٹہ : بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ نام نہاد گوادر منصوبہ لاڈلے پنجاب اور بیجنگ کے روایتی تقسیم کاری اور بلوچ بابت کشت و خون و مسخ لاشوں کے تحائف کے اور کچھ نہیں اس سے پہلے دنیا کے دو بڑے منصوبے ریکوڈک اور سیندک کو پنجاب و اسلام آباد کے بناوٹی آقاوُں کی نظر کر کے خفیہ رکھ کر بلوچ کو چاغی میں قحط و بھوک اور ان کی مدد کو آنے والے سیو دی چلڈرن پر صرف بلوچ بابت پابندی نے اس سازش کو بے نقاب کردیا جو ہمارے وسائل لوٹ کر اپنی محلوں اور بچوں کی کھلونوں پر صرف کر کے بلوچ کی ترقی کا دلفریب نعرہ بتا دیتے ہیں آج ایک مرتبہ پھر خفیہ معاہدات کی رو سے گوادر سے چائنا نام نہاد منصوبہ سے ترقی کا راگ الاپ دیا جاتا ہے لیکن آج بھی اس ترقی کی آڑ میں مکران و قلات میں ہمارے گھروں کو جلا کر لاشیں پھینک کر اپنی بنیادی سازشی سوچ سے پردہ پاشی کی جارہی ہے جان بوجھ کر زمینی جنم دہی سے مذہبی انتہا ء پسندی اور تنگ نظری کو بلوچستان منتقل کر کے ہمارے عورتوں کی چہروں پر تیزاب پاشی کر کے ہمارے برابری اور عدم تقسیم کی نعرے کی نفی کر کے اپنے بارودی گھونسلوں سے بلوچستان کو تشدد کا مصنوئی نمونہ پیش کرنے کیلئے صف بندی کی جارہی ہے لیکن دنیا کے طاقتور مہذب قوتوں کا بلوچ بنیادی انسانی حقوق کی مسخ اور جینے سے محروم پالیسوں پر خاموشی جرم میں برابر شریک ہونے کی دستکی روایت پیش کرتا ہے کیونکہ بعض مقامات پر خاموشی نسل کشی کو بڑھاوا دیتی ہے اقوامِ متحدہ ،یورپی یونین ،انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی اور عالمی صحافیوں اور مبصرین کی بلوچستان میں قدم نہ رکھنا بلوچ دانشوروں سیاست کے طالب علموں کو تشویش میں مبتلا کر رہے ہیں اگر واقعی دنیا میں مہذبیت کی کوئی قانون سازی ہے تو بلوچ کو بولنے پر لاش ملنے کی سلسلے کو روک کر بنیادی زندگی گزارنے کا حق دیا جائے اور ان قوتوں کو لگام دی جائے جو اپنی آئین و قانون کو مسخ کر کے بلوچ بابت خونی عزائم سے بلوچ مستقبل کو معاشی،سیاسی،انسانی نسل کشی کے جانب دھکیل رہے ہیں۔