گزشتہ دنوں ایک وڈیو ریلیز ہوئی جس میں ایک خاتون کو اخبار نویسوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے دکھایا گیا خاتون نے نام لے کر بعض اخبار نویسوں اور اینکرپرسن کو دھمکیاں دیں۔ ان کو اعتراض تھا کہ یہ تمام اینکر پرسن اور اخبار نویس لال مسجد کے معروف امام مولانا عبدالعزیز کی حمایت کیوں نہیں کرتے اور ان پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں۔ لال مسجد روز اول سے پاکستانی ریاست کے اندر ایک طبقے کا پسندیدہ ادارہ اور اس کا امام پسندیدہ شخصیت رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے لال مسجد کے خلاف کارروائی کی اور فوج استعمال کی جس میں دوسروں کے علاوہ مولانا عبدالعزیز کا بھائی بھی ہلاک ہوا۔ سرکاری دستوں میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ حکومت کو لال مسجد سے منسلک مدرسہ بند کرنا پڑا اور اس کی دیواریں مسمار کردی گئیں تاکہ اسلام آباد کے وسط میں مذہبی شدت پسندی کے مرکز کا خاتمہ کیا جائے۔ حکومت نے مدرسہ کو نہیں بلکہ شدت پسندی کے ایک بڑے مرکز کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا تھا جس میں طلباء کو اپنے حصول علم کے علاوہ مذہبی شدت پسندی اور اس کی ترغیب اور تربیت دی جاتی رہی۔ اخبارات گواہ ہیں کہ مولانا عبدالعزیز اور اس کے چند حمایتیوں نے داعش کے ہاتھ بیعت کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے قتل عام کو دہشت گردوں کی طرف سے جائز قرار دیا گیا تھا اس کے باوجود وزیر داخلہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کسی قسم کے کیسز نہیں ہیں۔ انہی کی وزارت داخلہ ملک بھر میں ہزاروں معصوم انسانوں کے خلاف آئے دن جھوٹے مقدمات بناتی ہے ان کو گرفتار کرتی اور جعلی مقابلوں میں ان کو ہلاک بھی کرتی ہے۔ مگر مولانا عبدالعزیز کا وہ بیان عین آئین اور قانون کے مطابق گردانتی ہے کہ آرمی اسکول پشاور میں قتل عام جائز تھا۔ اس پر سول سوسائٹی نے زبردست احتجاج بھی کیا مگر حکومت نے کارروائی نہیں کی کیونکہ لال مسجد اور اس کا امام کچھ ریاستی عناصر کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو ان کو بہ وقت ضرورت استعمال کرتا ہے اور ان اثاثوں کی حفاطت کرتا ہے۔ اسی تناظر میں نامعلوم خاتون کا وڈیو سامنے آیا ہے جس میں لبرل افراد کو دہشت گرد گردانا گیا ہے۔ ان کے جامعہ کے خواتین نے اسلام آباد میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جو کارنامے سرانجام دیئے وہ عین اسلام، قانون اور آئین کے مطابق تھی۔ ان کی اخبار نویسوں اور اینکر پرسن کے خلاف دھمکیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا چاہئے اور ان کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہئے۔ اگر ان تمام اخبار نویسوں اور اینکر پرسن کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار صرف اور صرف حکومت ہوگی اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ذاتی طور پر ہوں گے کیونکہ وہ مولانا عبدالعزیز کے دفاع میں سب سے آگے ہیں۔ حکومت وہ کررہے ہیں ثبوت ہم فراہم کریں کہ مولانا عبدالعزیز مذہبی شدت پسندی کا سرغنہ ہے۔