|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2016

کراچی: لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں جن کے مطابق عزیر بلوچ کے غیر ملکی خفیہ اداروں سے مضبوط روابط رہے اہم سیاسی رہنما نے رحمان ڈکیت کو پولیس کے ہاتھوں مروایا خالد شہنشاہ کو بلاؤل ہاوس سے زبردستی باہر بھیج کر قتل کرایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے غیرملکی خفیہ ادارے سے روابط کا اعتراف کیا اور کہاکہ مختلف سرکاری محکموں میں بھرتیوں اورعلیحدگی پسند بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کو لیاری میں روپوش کرائے جانے میں بھی وہی ملوث تھا۔عزیزبلوچ نے لیاری کے دو ارکان سندھ اسمبلی کو اپنا حلف یافتہ بھی قرار دے دیا۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق عزیر بلوچ نے ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی سے روابط کا اعتراف کیا ہے اورفرار کے بعد اسی ایجنسی کی مدد سے وہ پہلے ایران پھر مسقط اور پھر دبئی پہنچا تھا جہاں پیپلزپارٹی کے بعض اہم رہنماؤں نے اس سے رابطہ بھی کیا لیکن عزیر بلوچ کہتا ہے کہ وہ صرف آصف علی زرداری سے مل کر اختلافات کے حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا جو ممکن نہ ہوسکا۔دوران تفتیش عزیر بلوچ نے کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور مطلوب ترین علیحدگی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو لیاری میں روپوش کروائے جانے کا بھی اعتراف کیا ۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ عزیر بلوچ نے محکمہ لیبر پولیس اور فشریز میں بھرتیاں کروانے اور فشریز کے گرفتار وائس چیئرمین سلطان قمر صدیقی سے اسلحے کی خریدو فروخت کا بھی انکشاف کیا ہے۔عزیر نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ پیپلزپارٹی نے لیاری میں ثانیہ ناز، جاوید ناگوری اور عدنان بلوچ کو اسی کے کہنے پر ٹکٹ دیئے اور یہ بھی بتایا کہ لیاری سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے والی ثانیہ ناز اور جاوید ناگوری عزیر بلوچ کی وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ دریں اثنا عزیر بلوچ کے خلاف مقدمات فوجی عدالت کو بھجوانے کا فیصلہ کر لیا گیا نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا جائے گا عزیر بلوچ کا تعلق بھی کالعدم تنظیم سے ہے۔دریں اثناء لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ لیاری میں میری مرضی سے پولیس افسران کو تعینات کیا جاتا تھا ، پولیس افسران بھی شہریوں کے اغوا میں ملوث ہیں ، گینگ وارکے کارندے اور پولیس افسران پولیس موبائل اور بکتر بند میں شہریوں کو اغوا کرتے تھے ۔ پولیس کی موبائلیں لاشیں پھینکنے میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہیں۔تفصیلات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کی جانب سے تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے ، تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش مزید انکشافات کیے ہیں کہ لیاری میں میری مرضی اور پسند سے پولیس افسران کو تعینات کیا جاتا تھا ۔عذیر بلوچ کے مطابق ارشد پپو قتل اور میرے کراچی سے فرار ہونے سے قبل لیاری سمیت شہر بھر میں لیاری گینگ وارکی دہشت تھی اور اس وقت کے اعلی پولیس افسران مجھے فون کرکے ایس پی ، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او اور ہیڈ محرر تعینات کرنے کا پوچھتے تھے جبکہ مقتول ظفر بلوچ کو پولیس افسران کے بارے میں زیادہ معلومات تھی اس لیے کہ وہ عبدالرحمن عرف ڈکیت کے ساتھ شرو ع سے تھا اور اسے معلوم تھا کہ کون سا افسر ہمارا وفادار ہے، ایک ایس پی لیاری میں میرے خاص کارندوں کو فون کر کے مختلف علاقے میں گشت کرتا تھا اور میری ہدایت کے مطابق کام کرتا تھا ۔