|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2016

پی آئی اے میں بحران اس وقت سے پیدا ہوا جب حکومت نے بین الاقوامی دباؤ میں آکر یہ فیصلہ کرلیا کہ پی آئی اے کی نجکاری ضرور ہوگی۔ اسی دن سے پی آئی اے کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں جو آج دن تک جاری ہیں۔ مسلم لیگ کی تاجر لیگ اس بات پر بضد ہے کہ وہ قومی اثاثے اور تمام ریاستی ادارے فروخت کرکے رہے گی۔ حکومت کی زیادہ کوشش یہ ہے کہ حکمرانوں کے بزنس پارٹنرز کو یہ ریاستی اور منافع بخش ادارے فروخت کئے جائیں۔ ان میں پی آئی اے، اسٹیل مل، تمام گیس اور تیل کی کمپنیاں، بشمول وہ ادارے جو سالانہ 100ارب روپے کا منافع کماتے ہیں ان کو فروخت کیا جائے۔ ان میں او جی ڈی سی ایل اور دوسرے ادارے شامل ہیں اس کا مقصد بلوچستان اور سندھ کے وفاقی اکائیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز اور اس قسم کے چند اداروں میں بلوچستان اور سندھ کے چند ایک افراد کو ملازمتیں ملیں تھیں اور وہ آج بھی ملازم ہیں۔ نجکاری کے عمل سے زیادہ سے زیادہ بلوچستان اور سندھ کے جائز اور قانونی مفادات کو نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت او جی ڈی سی ایل اور دوسرے اداروں کی نجکاری کے مہم کے دوران بلوچستان کے جائز معاشی اور مالی حقوق کا دفاع نہیں کیا اور وفاقی حکومت کے فیصلوں میں ہاں میں ہاں ملائی جس کی وجہ سے ان کے 26فیصد حصص فروخت کئے گئے یعنی اب 26فیصد منافع حصص رکھنے والوں کو جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گیس اور تیل کی تمام کمپنیاں بلوچستان اور سندھ کے حوالے ہوتیں۔ اس سے صاف اور واضح اشارہ مل رہا ہے کہ موجودہ حکومت چھوٹے صوبوں کے معاشی مفادات کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہی ہے۔ پی آئی اے قومی ائیرلائن ہے اس سے صوبوں کا حق بنتا ہے کہ وہ سفر زیادہ اور بہتر سہولیات کی توقع کریں۔ منافع کے بجائے دور دراز علاقوں کو مہیا سہولیات بند کی گئیں۔ ان میں بلوچستان کے درجنوں فلائٹس شامل ہیں۔ نجی ائیرلائن جو صرف منافع کے لئے جہاز چلاتی ہے ملکی اور عوامی خدمت کے لئے نہیں۔ اس لئے تمام پارٹیوں اور عوامی نمائندوں کو پی آئی اے کی نج کاری کے خلاف صف آرا ہونا چاہئے اور وفاقی اکائیوں کے مفادات کا ہر قیمت پر دفاع کرنا چاہئے۔ اس بات کی بھی مذمت کرنی چاہئے کہ لازمی سروسز کا قانون پی آئی اے پر صرف ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے نافذ کیا گیا ہے کہ مقامی لوگوں کو ملازمت سے برطرف کیا جائے۔ کئی بار حکومت نے جھوٹ بولا اور کہا کہ پی آئی اے کی نج کاری نہیں ہوگی۔ قومی اسمبلی میں بائیکاٹ کے دوران ان گھٹیا انداز میں قانون پاس کرالیا اب چونکہ سینٹ میں اپوزیشن مضبوط ہے اس لئے حکومت اس کو سینٹ میں جلد پیش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی البتہ حکومت عوامی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل کررہی ہے اور 90سے زائد سرکاری ادارے کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کے درپے ہے۔ اس سے پہلے بینک اور پی ٹی سی ایل کوڑیوں کے دام فروخت کرچکی ہے۔