|

وقتِ اشاعت :   February 4 – 2016

پی آئی کے دو ملازمین کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ دونوں ملازمین نجکاری کے خلاف احتجاج میں شریک تھے کہ ان پر گولیاں چلائی گئیں .گولیاں ان دونوں کو لگیں اور دونوں کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں پر وہ ہلاک ہوگئے۔ ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ گولیاں کس نے چلائیں تھیں۔ نہ ہی کسی گروپ یا سرکاری ادارے نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ تاہم سیکورٹی کے ادارے پولیس، رینجرز اور ائیرپورٹ سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کے پاس اسلحہ تھا۔ اس کے ابھی تک شواہد نہیں ملے کہ احتجاج میں شریک ہونے والے ملازمین میں کسی کے پاس اسلحہ تھا۔ اس احتجاج میں خواتین ملازمین پیش پیش تھیں اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ وہ بحث میں الجھتی نظر آئیں۔ اس میں یہ گمان زیادہ ہے کہ کسی سرکاری اہلکار نے گولی چلائی ہوگی جس سے دو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور احتجاج نے ایک زیادہ سنگین رخ اختیار کرلیا۔ اس کی وجہ سے پی آئی اے کے چیئرمین مستعفی ہوگئے ،پی آئی اے کے ملازمین نے کام چھوڑ کر احتجاج میں شمولیت اختیار کرلی اور فلائٹ آپریشن شام گئے تک مکمل طور پر بند ہوگیا۔ ان ہلاکتوں کا شدید ردعمل ہوا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے مرکزی وزیر اطلاعات پرویز رشید، سینیٹر مشاہد اللہ خان کو بھی قتل کے الزام میں نامزد کردیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی اشتعال انگیز بیانات اور طرز عمل سے یہ واقعہ پیش آیا۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے متفقہ موقف اپنایا اور اس قتل اور طاقت کے بے جا استعمال کی مذمت کی اور کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں حکومتی اراکین اور وزراء کو سخت صورت حال کا سامنا کرنے پر مجبور کریں گے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہمناؤں نے پی آئی اے ملازمین کے قتل کی مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لازمی سروس کا قانون واپس لے، پی آئی اے کی نجکاری نہ صرف روک دے بلکہ اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منسوخ کردے۔ پی آئی اے ملازمین کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ مفاہمت سے معاملات کو حل کیا جاسکے ۔موجودہ صورت حال میں مسلم لیگ کے تاجر حکمران تنہا رہ گئے ہیں اور ان کو سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف بڑی پارٹیاں سڑکوں پر نکلنے کا پروگرام بنارہی ہیں تحریک انصاف کے عمران نے اس کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے کہ وہ بذات خود اس احتجاج میں شریک ہوں گے۔ شاید یہ احتجاج دوبارہ ڈی چوک اسلام آباد میں ہو۔ پی پی پی بھی یہ سوچ رہی ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی بھرپور حمایت کی جائے اور اس محاذ پر حکومت کو شکست دینے کے لئے پی پی پی کسی بھی وقت سڑکوں پر آسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پی آئی اے کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کی اور دونوں شہیدوں کے لئے 20 ،20 لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔