ریاست پاکستان نے گزشتہ 67سالوں میں بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرکے نہیں دیا۔ اس وجہ سے پورے صوبے کو سڑکوں کے جال سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے روڈ ٹرانسپورٹ ناپید تھا اور لوگ مجبور اونٹوں اور گدھوں پر سفر کرتے رہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا۔ مریض بوڑھے، بچے عورتیں سب مجبوراً اونٹ کی سواری کرتے رہے۔ مریضوں کو اونٹ، گدھوں پر اسپتال پہنچایا جاتا رہا۔ آج بھی سڑکیں نہیں ہیں۔ ریاست کی اولیت پنجاب اور اس کے وسطی علاقے ہیں جہاں پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بعد صنعت کاری کا عمل جاری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب صرف اپنے صوبے کے لئے 36ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے آئے۔ بلوچستان میں آر سی ڈی ہائی وے گزشتہ 56سالوں سے زیر تعمیر ہے اور یہ آج تک مکمل نہ ہوسکا۔ اس کے مقابلے میں لاہور۔پنڈی موٹر وے 8ماہ کی قلیل ترین مدت میں مکمل ہوا اور اس پر 34ارب روپے خرچ ہوئے۔ کسی کو یہ پریشانی نہیں رہی کہ وسائل دستیاب نہ ہوں گے اور منصوبہ 8ماہ میں مکمل ہوگیا۔ گوادر ائیرپورٹ کی تعمیر کا کام گوادر پورٹ کے ساتھ 2002میں شروع ہونا تھا۔ اس کا اعلان صدر اور آرمی چیف نے گوادر میں کیا تھا مگر گوادر ائیرپورٹ پر تعمیراتی کام آج تک شروع نہیں ہوا اور 15سال ضائع ہوگئے۔ گزشتہ بار چین کے وزیراعظم گوادر صرف اس لئے نہ آسکے کہ ان کا طیارہ گوادر ائیرپورٹ پر نہیں اتر سکتا تھا۔ رن وے چھوٹا اور مختصر تھا اور اس پر جیٹ طیاروں کی آج تک اترنے کی گنجائش نہیں ہے اور آئندہ ایک دھائی تک یہی صورت حال رہے گی کیونکہ حکمرانوں کے ’’مائنڈ سیٹ‘‘ میں کوئی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ بعض ادارے قومی اثاثے ہیں۔ ان میں پی آئی اے، سابقہ نیشنل شپنگ کارپوریشن، تیل اور گیس کی کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ وفاقی کمرشل ادارے نہیں بلکہ صوبوں کے لئے اثاثے ہیں۔ حکمرانوں نے روز اول سے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ پی آئی اے کو پہلے سازشوں کے ساتھ تباہ کرنا ہے اور بعد میں کوڑیوں کے دام فروخت کرنا ہے چنانچہ اس منصوبہ پر عمل کیا گیا۔ پہلے پی آئی اے کو تباہ کیا گیا اور اب وزیراعظم لوگوں کو یہ بتارہے ہیں کہ روزانہ 10کروڑ کا نقصان ہورہا ہے۔ آپ 50نئے جہاز خریدیں دوسرے دن پی آئی اے منافع دینا شروع کردے گا۔ ایران 500مسافر بردار طیارے خرید رہا ہے تاکہ اپنے لوگوں کو سفر کی زیادہ بہتر سہولیات فراہم کرے۔ پاکستان ہے کہ پی آئی اے کو فروخت کرنے کے درپے ہے خصوصاً اپنے غیر ملکی پیٹرن کو تاکہ وہ پاکستان کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹے۔ پی آئی اے کی صرف تربت میں ہفتہ میں 150پروازیں تھیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہوائی سروس صرف اس لئے مہیا کی گئی تھی کہ وہ نصف پاکستان ہے، پسماندہ ہے اور سڑکیں نہیں ہیں۔ اس لئے جہازوں کو کم کرایوں پر چلایا گیا تاکہ بلوچستان کے عوام کو بھی ہوائی سفر کی سہولیات حاصل ہوں اس طرح سے جیونی، گوادر، پسنی، اورماڑہ، تربت، پنجگور، دالبندین، زاہدان، مشہد، سبی، جیکب آباد، خضدار، لاڑکانہ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ کراچی، لاہور، ملتان اور دوسرے شہروں کو باقاعدگی کے ساتھ سہولیات فراہم کی گئیں۔ آج تمام فلائٹس بند کردی گئیں ۔کوئی نجی ائیرلائن ان روٹس پر ہوائی سروس مہیا نہیں کرتی۔ ایک نجی ائیر لائن نے کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ اسلام آباد کی سروس بند کردی اور جہازوں کو دبئی کے روٹ پر چلادیا۔ یہ مرکزی وزیر کی کمپنی ہے لہٰذا بلوچستان کے عوام کو ہوائی سفر سے مکمل طور پر محروم کرنے کے لئے پی آئی اے کو نیلام کیا جارہا ہے۔