پورا بلوچستان حقیقی معنوں میں دنیا سے کٹ کررہ گیا ہے۔ وجہ ہے پی آئی اے اور بسوں کی ہڑتال۔ صرف ٹرین واحد ذریعہ رہ گیا ہے جس کو بلوچستان کے عوام آمدورفت کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ٹرینیں بھی صرف چند ہیں۔ ایک کراچی کے لیے، دوسرے لاہور اور راولپنڈی کے لیے۔ ریلوے کا حال خراب ہے، انجن اتنے پرانے اور ناکارہ ہوگئے ہیں کہ بولان میں خوفناک حادثہ کے بعد ڈرائیوروں نے پرانے انجن چلانے سے انکار کیا جس سے ان کی اور مسافروں کی جانوں کو خطرات لاحق رہتی ہے۔ ایک حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور نہ ہی نئے انجن فراہم کررہی ہے۔ تمام ترقی پنڈی۔ کراچی سیکشن کے لیے ہے یا پنجاب کے مختلف شہروں کو ملانے، زیادہ تیز رفتار ٹرینیں چلانے، ٹریک کو دورویہ کرنے پر سرمایہ کاری ہورہی ہے یا پنجاب کے ریلوے اسٹیشن پر مرمت کا کام ہورہا ہے۔ سب سے زیادہ ضروری کام دو ہیں کہ کوئٹہ۔ زاہدان سیکشن کے ریلوے ٹریک کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تبدیل کیا جائے تاکہ پاکستان کے ہر کونے سے کارگو دنیا کے کسی بھی یورپی ملک تک پہنچ سکے۔ ایران نے اپنا ریلوے کا نظام جدید تر بنالیا ہے اور اس کو بین الاقوامی ریلوے نظام سے منسلک کر بھی دیا ہے۔ مگر پاکستان کی حکومت گزشتہ ایک دہائی سے اس معاملے پر فیصلہ لینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کوئٹہ۔زاہدان ریلوے سیکشن ریاست پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ گزشتہ 50سالوں میں اس سیکشن پر ایک روپے کی بھی سرمایہ کاری نہیں ہوئی حالانکہ یہ واحد راستہ اور روٹ ہے جس سے پاکستان بین الاقوامی تجارت ریل کے ذریعے کرسکتا ہے خصوصاً ایران اور ترکی کے ساتھ۔ تاہم بلوچستان الگ تھلگ رہا ہے خصوصاً پی آئی اے اور لوکل بسوں کی ہڑتال کی وجہ سے کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی کوشش نہیں ہورہی کہ ہڑتال کا کوئی آبرومندانہ حل تلاش کیا جائے۔ خصوصاً بسوں کے ساتھ زیادتی ہے ان کو جنگل میں پھینک دیا گیا کیونکہ لینڈ مافیا کا کیو ڈی اے پر راج ہے۔ اس نے بس اڈہ ہزار گنجی منتقل کروایا ہے، لوگوں اور عوام الناس کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ وہاں سہولیات کا نام و نشان نہیں۔ رکشہ اور ٹیکسی اور سوزوکی والے ہزار گنجی سے شہر تک ہزار روپے تک کرایہ طلب کررہے ہیں پہلے حکومت شٹل سروس کامیابی سے چلائے اور لوگ اس سے مطمئن ہوں تو بعد میں بس اڈہ ہزار گنجی منتقل کیا جائے۔ دنیا بھر میں بس اڈے شہروں کے وسط میں قائم ہیں اور لوگ بسوں سے اترنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں یہاں جنگل میں اڈہ بنایا گیا ہے جہاں پر عوامی سہولیات کا نام و نشان نہیں ہے لینڈ مافیا کے بعد ٹرانسپورٹ مافیا نے لوٹ مار شروع کردی ہے اور سرکاری اہلکار بھی اس میں شریک ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بس مالکان کی اس بات پر ہمت افزائی کرنی چاہئے کہ وہ شہر کے اندر اور مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے بس ٹرمینل قائم کریں تاکہ آمدورفت میں کوئی خلل واقع نہ ہو اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر ہوں۔