کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے کہا کہ ایم ایس ایف سمیت ملکی و بین الاقوامی این جی اوز بلوچ علاقوں اور بلوچ نوجوانوں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں متوقع مردم شماری بلوچستان کے حالت بہتر ہونے کے بعد کرائے جائیں چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری قابل قبول بلوچ علاقوں میں 60فیصد بلوچوں کے شناختی کارڈ بنے ہیں نادرا حکام کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اکثریتی بلوچ قومی شناختی کارڈ سے محروم ہیں جبکہ ساڑھے پانچ لاکھ مہاجر خاندانوں کو سیاسی بنیادوں اور پیسے کے عیوض شناختی کارڈز فراہم کئے گئے حکومتی مشینری کو بھی غیر قانونی شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے استعمال میں جا رہا ہے ہزار گنجی اڈے میں ٹرانسپورٹروں کے مطالبات فوری طور پر تسلیم کئے جائیں بلوچ علاقوں کے مسافروں کو پک اینڈ ڈراپ سمیت دیگر تمام سہولیات فراہم کی جائیں ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایم ایس ایف سمیت ملکی و بین الاقوامی آرگنائزیشنز بلوچ نوجوانوں کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہے ہیں بلوچ علاقوں ان کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں لسانی بنیادوں پر ان اداروں کے ارباب و اختیار نے بلوچوں نوجوانوں کو روزگار کے بجائے انہیں بے روزگار کرنے کی پالیسی روا رکھی ہوئی ہے بلوچ کے حقیقی بلوچ اضلاع و ڈویژنز کو جس طریقے سے انہیں نظر انداز کیا ہے صحت ، تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں بھی بلوچ علاقوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ لوکل ، ملکی و بین الاقوامی این جی اوز میں گورنمنٹ ملازمین جو این او سی اور تعلیمی قابلیت ملحوظ خاطر رکھے بغیر روزگار دیا جا رہا ہے مقامی نوجوانوں کو ترجیح نہ دینا ناروا سوچ کے مترادف ہے بلوچستان نیشنل پارٹی جو بلوچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں بلوچوں کے ساتھ ناانصافیوں پر آواز بلند کرنے کو ترجیح دے گی اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی کیونکہ بلوچستان اور بلوچ وسائل پر چلنے والی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن اور سرکاری اداروں میں مستحق باصلاحیت بلوچوں کو نظر انداز کرنا کیا انصاف پر مبنی کام ہے انہوں نے کہا کہ خانہ شماری ، مردم شماری 40لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں بلوچ قوم قبول نہیں کرے گی ان کی موجودگی میں خانہ شماری ، مردم شماری صاف شفاف نہیں ہو سکتے اور نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت ہوگی بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ اصولوں کے بھی یہ برخلاف ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں نے بلوچستان سے شناختی کارڈز ، پاسپورٹ اور ووٹر لسٹوں میں اپنے ناموں کا اندراج کرایا مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی گروہی مفادات کے خاطر غیر ملکیوں کے شناختی کارڈز کا اجراء یقینی بنوایا گیا انہوں نے کہا کہ اب بھی بلوچستان حکومت کی مشینری کو بھی غیر قانونی طریقے سے استعمال میں لایا جا رہا ہے بلوچستان حکومت کے ارباب و اختیار نادرا و پاسپورٹ آفس پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ بلاک شناختی کارڈز کا اجراء کیا جائے کوئٹہ کے غیور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ کوئٹہ کے گردونواح میں کونسے علاقے ہیں جہاں اکثریتی آبادی افغان مہاجرین کی ہے اور اسی طریقے سے بلوچستان کے پشتون اضلاع میں افغان مہاجرین نے اپنے لئے تمام دستاویزات حاصل کرچکے ہیں اس کے باوجود اب بھی حکمران بلوچ دشمنی پر پالیسیاں روا رکھے ہوئے ہیں دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت اور اختیار نہیں دیتا کہ 40لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں بلوچستان میں مردم شماری کرائی جائے بلوچستان حکومت تنگ نظری اور نسلی بنیادوں پر سیاست کر رہی ہے حکومت میں شامل جماعتیں شریک جرم ہیں جو بلوچستان میں افغان مہاجرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور بلوچستان سرکار کی مشینری کو بھی خاطر میں لانے سے گریزاں نہیں تاریخ ان حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی جو بلوچستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے گریزاں نہیں انہوں نے کہا کہ انہی افغان مہاجرین کی وجہ سے بلوچستان میں مذہبی جنونیت ، انتہاء پسندی ، کلاشنکوف کلچر ، بدامنی ، فرقہ واریت سمیت دیگر منفی سوچ بڑھ چکی ہے یہی لوگ لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان کی معیشت پر بوجھ ہیں اور معاشی منڈی سمیت تمام علاقوں میں قبضہ گیر بن چکے ہیں مقامی لوگ کا استحصال ہو رہا ہے مہاجرین چاہے کسی بھی نسل ، زبان ، فرقے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں کسی بھی صورت مردم شماری کا حصہ بننے نہیں دیں گے اور نہ ہی دنیا کا کوئی قانون ایسا بنا ہے کہ وہ ان مہاجرین کو غیر قانونی طریقے مردم شماری میں شمار کیا جائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو یہاں آباد کیا جائے عرصہ دراز سے بلوچستان کے غیور عوام اپنی مہمان نوازی کا فریضہ ادا کر چکے ہیں انہوں نے کہا کہ 2011ء کے خانہ شماری کے دوران سیکرٹری شماریات نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ بلوچستان میں خانہ شماری کے دوران افغان مہاجرین کے گھروں کو کئی کئی بار شمار کیا گیا جس کی وجہ سے قلعہ عبداللہ ، ژوب ، لورالائی ، پشین میں دو سے 5 سو فیصد اضافہ ہوا جو کسی صورت ممکن نہیں یہ سب غیر ملکیوں کی آمد ، شناختی کارڈز کے غیر قانونی اجراء کی وجہ سے ہوا جس سے وہاں کی مقامی آبادی متاثر ہوئی بیان میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر مہاجرین کو بلوچستان کے باعزت طریقے سے انخلاء کو یقینی بنایا جائے کیونکہ اب افغانستان میں امن ہے مہاجر وہاں جا کر اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں انہوں نے کہا کہ ہزار گنجی اڈے کو منتقل کرنے کے باوجود مسافروں کئی سہولیات سے محروم ہیں بلوچ علاقوں سے آنے والوں کو نہ تو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی گئی ہے نہ کہ دور دراز سے آنے والوں کیلئے رہائش کا کوئی انتظام خاص ہے انہوں نے کہا کہ فوری طور پر ٹرانسپورٹروں کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ مسافروں کے مسائل کو بھی مد نظر رکھ کر اقدامات اٹھائے جائیں ۔