کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے کوئٹہ میں فورسز پرحملوں ،خودکش بم دھماکے،باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پرحملے کیخلاف دو الگ الگ مذمتی قراردادیں متفقہ طورپرمنظور کرلیں-ایوان نے قائد حزب اختلاف مولاناعبدالواسع کی جانب سے امن وامان کی صورتحال پر پیش کردہ تحریک التواء بھی بحث کیلئے منظور کرلی 12فروری کے اجلاس میں مذکورہ تحریک التواء پربحث کی جائیگی ۔بلوچستان اسمبلی کااجلاس منگل کو اسپیکراسمبلی راحیلہ حمیددرانی کی زیرصدا رت 21منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن رکن سردارعبدالرحمن کھیتران نے باچاخان یونیورسٹی چار سدہ اور کوئٹہ میں خودکش دھماکے کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ پہلے باچاخان یونیورسٹی پرحملہ ہوا یہاں کوئٹہ میں بھی گزشتہ روز پولیس اہلکاروں پرفائرنگ کی گئی اورفرنٹیئرکور کی گاڑی کے قریب خودکش حملہ ہوا ایوان نے ان واقعات کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی جائے جس پر تمام شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی رواں سیشن کیلئے انجینئرزمرک اچکزئی ،یاسمین لہڑی ،منظور کاکڑ اورآغارضا پرمشتمل پینل آف چیئرمین کااعلان کیاگیااجلاس میں پہلی مذمتی قراردادانجینئرزمرک اچکزئی کی جانب سے لائی گئی جس میں کہاگیاتھاکہ یہ ایوان 19جنوری 2016باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پرحملے میں معصوم طلباء اوراساتذہ کیلئے وحشیانہ اوردہشتگردانہ قتل پردلی تعزیت کااظہارکرتاہے یہ ایوان ان معصوم طلباء اوراساتذہ پردہشتگردانہ فعل کے نتیجے میں بہیمانہ قتل کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتاہے انہوں نے قراردادپر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ روزبروز حالات خرابی کی جانب جارہے ہیں ہم حالات کی بہتری کیلئے تجاویز دیتے ہیں مگر کوئی نہیں سنتا انہوں نے کہاکہ باچاخان نے عدم تشدد کافلسفہ دیااورتمام اقوام کویہ درس دیاکہ اگر عدم تشدد کے فلسفے کواپنائیں گے توجی سکیں گے ان کے نام سے منسوب یونیورسٹی کوبھی معاف نہیں کیاگیاانہوں نے کہاکہ خان عبدالولی خان نے 1989میں کہاتھاکہ پاکستان کے حالات افغانستان سے بھی بدترہونگے اورآج ایسا ہی ہے انجینئرزمرک نے کہاکہ جب ہم پوچھتے ہیں توکہاجاتاہے کہ بیرونی مداخلت ہے ہم اپنے ملک میں دوسروں کو مداخلت کاموقع ہی کیوں دیتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی کیاہے داخلہ پالیسی کیاہے کوئی نہیں جانتابیرونی مداخلت کوہرصورت پرروکناچاہئے ہمارے بچوں کوماراجارہاہے اگریہی حالات رہے توہمارے بچوں سے کتابیں رہ جائینگی اورپسٹل اورکلاشنکوف چلنے لگیں گے انہوں نے کہاکہ جب تک نیشنل ایکشن پلان پرصحیح معنوں میں عملدرآمدنہیں ہوتااس وقت تک حالات صحیح نہیں ہوسکتے ہماری لیڈرشپ نے اس پردستخط کئے ہیں مگرموثرعملدرآمدنہیں ہوتااچھے برے کی تفریق ختم ہوناچاہئے ایوان میں ایک اورمشترکہ مذمتی قرارداد سرداررضامحمدبڑیچ ،ڈاکٹرشمع اسحاق اورڈاکٹررقیہ ہاشمی کی جانب سے صوبائی وزیرصحت رحمت صالح بلوچ نے پیش کی جس میں کہاگیاتھاکہ 6فروری 2016کو لیاقت پارک کوئٹہ کے قریب ایک خود کش حملے کے نتیجے میں شہیدوزخمی ہونیوالے ایف سی اہلکاروں اورمعصوم شہریوں کی شہادت پر یہ ایوان افسوس کااظہار کرتاہے اور اس بزدلانہ دہشتگردی کے واقعہ کی شدیدالفاظ میں مذمت بھی کرتاہے نیز یہ ایوان پولیس جوانوں پرکافی عرصے سے جاری بزدلانہ حملوں کے تسلسل کے باوجود سیکورٹی اداروں کی جانب سے دہشتگردی کی بیخ کنی اورامن وامان بحال کرنے کیلئے دی جانیوالی قربانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیساتھ سیاسی وعسکری قیادت کی مشترکہ ومتفقہ پالیسیوں کو آگے لے جانے کیلئے بھرپورانداز میں اعتماد کااظہاربھی کرتاہے قرارداد پراظہارخیال کرتے ہوئے رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ بلوچستان وار زون کنفلیکٹ زون میں واقع ہے یہاں سے انسانی جانوں سے کھیلنے کاعمل شروع کیاگیاہے حالات کی بہتری کیلئے فورسز نے قربانیاں دی ہم امن وامان کے اداروں کو فعال دیکھناچاہتے ہیں اس سے بڑاالمیہ کیاہوگا کہ اللہ کے گھر میں عبادت کرتے ہوئے انسان کوبھی نہیں بخشاجاتا انہوں نے کہاکہ مہذب معاشرہ کسی بھی نام پر کسی قتل عام کی اجازت نہیں دیتا ان کاکہناتھاکہ ڈھائی سال قبل کے بلوچستان اورآج کے بلوچستان میں زمین وآسمان کافرق ہے اگرموجودہ حکومت اقدامات نہ کرتی توآج صوبے میں خون کی نہریں بہتیں ہم کسی کانام نہیں لیتے مگر سابق حکومت کے دور میں حالات بہت زیادہ خراب تھے میرے ضلع میں حکومت کی رٹ نہیں تھی جوسابق وزیراعلیٰ تھے ان کے ضلع میں حکومت کی رٹ نہیں تھی اسی طرح جوموجودہ وزیراعلیٰ ہے ان کے ضلع میں بھی حکومتی رٹ نہیں تھی مگرآج حالات بہترہوئے ہیں جس کیلئے سیکورٹی فوسز نے قربانیاں دی ہم کسی بھی دہشتگردی کوبرداشت نہیں کرینگے ہماے جوانوں اورہمارے لوگوں نے جوقربانیاں دی وہ رنگ لائیں گی ڈاکٹرشمع اسحاق نے کہاکہ بلوچستان سے امن کی فاختہ کواڑے ہوئے 22سال گزرگئے ہمارے بچے کیوں عدم تحفظ کاشکارہے ہماری عبادت گاہیں کیوں میدان جنگ بنیں ان سوالوں کے جوابات ماضی کے غلط پالیسیوں سے مل جاتے ہیں سرد جنگ کے دوران ہم نے اپنے ملک کوایک ایسی جنگ میں دکھیلاجس کااختتام نہیں آرہااس جنگ سے نکلنے کیلئے ہمیں اپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرنی ہوگی ڈاکٹررقیہ ہاشمی نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ مذمتی قراردادتیں ہم منظور کرتے ہیں کتنی قراردادوں پرعملدرآمد ہواہے ہم توصرف اپنی تنخواہ ،ٹی اے اورڈی اے برابرکررہے ہیں حالانکہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرے یہاں کوئٹہ میں ہم منفی 22سینٹی گریڈ میں 100لاشیں لیکر بیٹھے رہے وزیراعظم یہاں آئے وزیرداخلہ آئے افسوس کہ ہم انصاف نہیں دلاسکے سردارعبدالرحمن کھیتران ،غلام دستگیر بادینی ،مفتی گلاب کاکڑ،یاسیمین لہڑی،ڈاکٹرحامد اچکزئی اورشاہدہ رؤف نے بھی قراردادپراظہارخیال کیااوردہشتگردی کے واقعات پرافسوس کرتے ہوئے کہاکہ دہشتگردی کیخلاف منظم پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جولوگ جرائم یادہشتگردی میں ملوث ہے ان کیخلاف بلاتفریق کارروائی ہونی چاہئے جب تک دہشتگردی کیخلاف سخت پالیسی بناکر اس پرعملدرآمدنہیں کرینگے نیشنل ایکشن پلان پر موثرعملدرآمدنہیں ہوگاحالات بہترنہیں ہونگے اراکین اسمبلی کاکہناتھاکہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سیکورٹی فورسز نے بہت قربانیاں دی ہے ۔ایوان نے دونوں قراردادوں کو متفقہ طور پر منظورکرلیااجلاس میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2014بھی پیش کی گئی وزیرتعلیم کی عدم موجودگی پر انجینئرزمرک اچکزئی کے پوچھے گئے سوالات موخر کردئیے گئے جب کہ ایوان نے ہفتے کے روز کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کیخلاف تحریک التواء بھی بحث کیلئے منظور کی تحریک التواء اپوزیشن لیڈر مولاناعبدالواسع نے پیش کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ روز شارع اقبال کوئٹہ میں ایف سی کی گاڑی کوٹارگٹ کرکے خودکش حملہ کیاگیاجس کے نتیجے میں ایف سی اہلکاروں سمیت 10افراد شہید اورمتعدد زخمی ہوئے اوراسی روز سریاب روڈ پرپولیس موبائل پرفائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہوااس عوامی نوعیت کے حامل مسئلے کو زیربحث لایاجائے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں آگ اورخون کاکھیل جاری ہے 2ماہ سے پولیس اور فورسز پر حملے ہورہے ہیں عام لوگ بھی ٹارگٹ کئے جارہے ہیں مگر حکومتی اراکین بھی ہماری طرح یہاں کھڑے ہوکر صرف مذمت کرتے ہیں وہ بھی مذمت کرے ہم بھی مذمت کرے تو اقدامات کون کریگا دعوے توبہت کئے گئے کہ یہ ذمہ دار لوگوں کی حکومت ہے اگر کوئی ذمہ دارہے تو ذمہ داری قبول کی جائے انہوں نے تحریک التواء پر دودن بحث کرانے کی استدعا کی صوبائی وزیرداخلہ میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ تحریک التواء اہمیت کی حامل ہے اس وقت پوری قوم دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑرہی ہے میراڈھائی سالہ تجربہ ہے ہم لاء اینڈآرڈر پر بحث کرتے رہے ہیں یہ جوتحریک التواء ہے اس پرروایتی بحث نہیں ہونی چاہئے کہ اراکین کھڑے ہوکر کہیں کہ ان کے علاقوں میں اتنے لوگ مرے بلکہ اراکین تجاویز دیں کہ اس جنگ کوکیسے لڑاجائے ۔رائے شماری کے بعد اسپیکراسمبلی نے تحریک التواء منظورہونے کی رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ 12فروری کے اجلاس میں تحریک التواء پربحث ہوگی بلوچستان اسمبلی کااجلاس 12فروری کوسہ پہر4بجے تک ملتوی کردیاگیا۔