نواز شریف بضد نظر آتے ہیں کہ وہ پی آئی اے کو ضرور فروخت کریں گے ملازمین سے اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوگی۔ دوسری جانب حکومت ہڑتال توڑنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ابھی تک چند ایک پروازیں چلاچکی ہے۔ پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین کا دعویٰ ہے جہاز اڑانے سے پہلے حفاظتی نقطہ نظر، خصوصاً مسافروں کی سلامتی کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے سعودی عرب میں پی آئی اے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ سعودی عرب سے پاکستان تک پی آئی اے کے مسافر بغیر میزبانوں کے سفر کرتے رہے کیونکہ تمام ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ حکومت ہڑتال توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ چند ایک پائلٹ حکومت کے ہاتھ آگئے ہیں۔ لہٰذا باقی اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ جہاز ضرور اڑائیں اور دنیا کو یہ تاثر دیں کہ ہڑتال ناکام ہوگئی ہے ، فضا میں پروازیں بحال ہوگئی ہیں اور ملازمین کو شکست ہونے والا ہے اور آخر کار حکومت پی آئی اے کو فروخت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور یہ من پسند افراد کو فروخت کردی جائے گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کے رہنما ء خود ہی پی آئی اے فروخت کریں گے اور اس کو دوسرے ہاتھ سے خود خریدیں گے۔ لیکن اس بار شاید یہ ممکن نہ ہو کیونکہ پورا ملک اور تمام بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں اور قومی رہنما حکومت کے مخالف ہیں حکومت کے لئے یہ آسان نہیں ہوگا کہ اتنی زبردست مخالفت کے باوجود پی آئی اے کو خود فروخت کرے اور خود ہی خریدار بن جائے۔ بعض قومی رہنماؤں نے پی آئی اے کے احتجاج میں شرکت کی اور اگر اس ہڑتال نے حکومت کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار کرلی تو حکومت کے خاتمے کے امکانات زیادہ روشن ہوجائیں گے۔ فی الوقت پاکستان ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور اس کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات روز بروز خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خصوصاً بڑے بڑے واقعات ان میں کوئٹہ میں ہونے والے دو بم دھماکے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیکورٹی کی صورت حال بہت زیادہ سنگین ہے اور حکومت کی مکمل توجہ پی آئی اے خریدنے اور فروخت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ملک کی سالمیت اور اس کی سیکورٹی کا کوئی خیال نہیں۔ رہنما ء صرف اور صرف تجارت کو اہمیت دیتے ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری بھی تجارتی معاملہ ہے جس کو سب سے زیادہ اولیت دی جارہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے یہ توقع نہیں کہ وہ لوگوں اور ملک کے زیادہ اہم ترین معاملات پر توجہ دیں گے۔ اپنی تجارتی سرگرمیاں بند نہیں کم ضرور کردیں گے۔ اس لئے حزب اختلاف کی بڑی بڑی پارٹیوں نے پی آئی اے کو بچانے کا پروگرام بنایا ہے اور حکومت نے پہلے اس کو تباہ کرنے اور بعد میں اس کو فروخت کرنے کا تہیہ کرلیا ہے ان کی کوشش ہے نجکاری کے بعد پی آئی اے سے وہ ذاتی طور پر اربوں ڈالر کمائیں اور لوگوں کو سفری سہولیات سے محروم رکھیں ۔