|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2016

کوئٹہ: بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادکے مرکزی ترجمان نے آواران کے مختلف علاقوں تیرتیج،ہارونی ڈن،سیاہ گزی اور گورستانی سمیت بولان اور دشت میں فوجی آپریشن اور کیچ و کراچی سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا آواران میں فورسز نے مقامی آبادی کو محاصرے میں لیکر بی ایس او آزاد کے شہید رہنماء رضاجانگیر اور بی ایس او آزاد کے مرکزی جونیئروائس چیئرمین ڈاکٹر سلیمان بلوچ اور لاپتہ جمیل احمد سمیت متعدد گھروں کو جلادیا گیا اور بلوچ خواتین کو ہراسان کرکے تشدد کا نشانہ بنایا تیرتیج کے علاوہ سیاہ گزی اور ہارونی ڈن میں بھی متعدد گھروں جبکہ گورستانی گاؤں کے تمام گھروں کو مال مویشیوں سمیت جلادیا ۔ترجمان نے کہا ریاستی ادارے بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے کیلئے سیاسی کارکنوں کو اغواء و شہید کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں راستے سے ہٹانے اور خوفزدہ کرنے کیلئے گھروں کو جلا کر اپنی شکست خوردگی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ گذشتہ ہفتے تربت میں ریاستی اداروں نے سکول ٹیچر نواز بلوچ کو اغوا کیا تھا، اغوا کے چند دنوں بعد گزشتہ روز اسکی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی۔ اس کے علاوہ 28ستمبر 2013کو پنجگور سے مشکے جاتے ہوئے راستے سے فورسز کے ہاتھوں اغواء ہونے والے یاسر ولد شوکت صحرائی کی لاش دو دنوں قبل کراچی سے برآمد ہوئی۔ ترجمان نے کہا کہ ریاست پچھلے کئی عرصے سے بلوچ نسل کشی کی پالیسوں میں وسعت لاتے ہوئے نہتے بلوچ فرزندان کی حراستی قتل میں اضافہ کررہی ہے ۔انہوں نے کہا بلوچستان بھر میں فورسزکی جانب سے ختم نہ ہونے والے کاروائیوں میں روز بہ روز شدت آرہی ہے، ریاستی ادارے خود کو جنگی قوانین سے بالاترسمجھ کر نہتے بلوچ عوام کے خلاف اپنی طاقت کا انتہائی استعمال کررہی ہیں ۔