کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مارچ 2016میں ممکنہ مردم شماری کے لئے بنائے گئے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی گورننگ اور فنکشنل ممبرز میں بلوچستان کی موثر نمائندگی کویقینی بنایا جائے اسمبلی میں مشترکہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی جبکہ چلڈرن ہسپتال سے متعلق مشترکہ قرارداد کو کمیٹی کے سپر د کر دیا محکمہ تعلیم میں آئی ٹی شعبے سے وابستہ ملازمین کی تنخواہوں اور مستقل تعیناتیوں کے سمری جلدازجلد منظور کرانے سے متعلق قرارداد کو وزیر تعلیم کی یقین دہانی پر واپس لے تحریک التوا نمبر3 کو قرارداد کی شکل میں تبدیل کر کے منظور کر لی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں35 منٹ تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں مشترکہ قراداد نمبر62 کو حکومتی رکن نصراللہ زیرے نے ایوان میں پیش کر تے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے18 مارچ2015 کے فیصلے کے مطابق نئی مردم شماری مارچ2016 سے کروانا متوقع ہے جس پر اٹھنے والے اخراجات تقریبا145 ارب روپے صوبوں سے وصول کئے جائیں گے نیز یہ کہ سال2011 میں مردم شماری کا ادغام وفاقی شماریاتی ادارہ اور ایگریکلچر شماریاتی ادارے میں کر کے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے نام سے تنظیم نو کی کی گئی جس نے2011 میں خانہ شماری عمل میں لائی جس میں نہ تو صوبوں کو اس میں نمائندگی دی گئی ہے اور نہ ہی بھرتی کے عمل میں صوبوں کے کوٹے کا تعین کیا گیا ہے مشترکہ قراداد کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لی جبکہ چلڈرن ہسپتال سے متعلق مشترکہ قرارداد نمبر63 کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی نے بحث کے بعد کمیٹی کے سپرد کر دی اور کمیٹی ایک ماہ میں اپنے سفارشات پیش کرینگے مشترکہ قرارداد حکومتی رکن نصراللہ زیرے نے ایوان میں پیش کر تے ہوئے کہا کہ بچوں کے علاج ومعالجے کیلئے معروف چلڈرن ہسپتال کوئٹہ واحد ہسپتال ہے جس کا قیام1998 میں جرمن حکومت کے تعاون سے عمل میں لایا گیا تھا جو بلا شبہ صوبہ کے عوام کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے مذکورہ ہسپتال انتظامی طور پر ایک خود مختار بورڈ کے ذریعے ایڈیشنل چیف سیکرٹری تر قیات حکومت بلوچستان کی سر براہی میں سال1998 تا2003 پانچ سال جرمن حکومت اور بلوچستان حکومت کے اشتراک سے چلایا گیا حکومت بلوچستان نے اس ہسپتال کو با قاعدہ قانونی اختیار کے ذریعے رجسٹرڈ کیا سال2003 کے بعد ایک معاہدے کے تحت حکومت بلوچستان نے ہسپتال مذکور کو اپنے دائرہ اختیار میں لینا تھا لیکن بوجہ ایسا نہ ہو سکا جس کے باعث باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ ہونے کے باعث ہسپتال خسارے میں چلاگیا جس کی وجہ سے ہسپتال کی موجودہ انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے صوبے کے غریب اور نادر مریض بچوں کو علاج معالجے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے دوسری جانب ہسپتال میں17 سے کام کرنیوالے غریب ملازمین بھی ریگولر نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے اگر حکومت نے اس فعال ادارے کو اپنی تحویل میں نہ لیا تو یہ ادارہ مزید زول پزیری کے باعث بند ہو نا ایک فطری امر ہے جس سے صوبہ کے عوام کو بچوں کے علاج ومعالجے کی واحد سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں وہ اس سہولیات سے محروم ہو جائیں گے حکومتی رکن ڈاکٹر شمع اسحاق نے محکمہ تعلیم میں آئی ٹی شعبہ سے وابستہ ملازمین کے تنخواہوں سے متعلق قرارداد نمبر83 وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال کے یقین دہانی پر واپس لے لی اور وزیر تعلیم نے یقین دہائی کرائے کہ 18 فروری کے اجلاس میں ایوان کو تفصیل سے آگاہ کرونگا حکومتی رکن ڈاکٹر شمع اسحاق نے12 فروری کے نشست میں موخر شدہ قرارداد کو دوبارہ ایوان میں پیش کر تے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم میں آئی ٹی کے شعبہ سے وابستہ اساتذہ کرام ودیگر درجہ چہارم کے ملازمین کو گزشتہ31 ماہ سے اپنے فرائض ادا کر نے کے باوجود تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی ہیں جس کی بناء وہ سراپا احتجاج اور نان شبینہ کے محتاج ہیں اگر چہ حکومت کی جانب سے مسلسل یہ تسلی دی جا رہی ہے کہ جیسے ہی ان کی تنخواہوں اور مستقل تعیناتیوں کی سمری منظور کی جائیگی ، تب انہیں تنخواہیں ادا کی جائیگی لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کر تا ہے کہ وہ ان ملازمین کی تنخواہوں اور مستقل تعیناتیوں کی سمری جلدازجلد منظور کی جائے تاکہ ان ملازمین کو31 ماہ کی تنخواہوں کی بقایا جات کی ادائیگی ممکن ہو سکے اور انہیں نان شبینہ کا محتاج ہونے سے بچای جاسکے۔