|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان کی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملد رامد مزید تیز کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کو ئٹہ شہر میں قائم چار مدارس کو سیل کردیا گیا ہے جبکہ صوبے کے بعض علاقوں میں قائم تقر یباً تین درجن کے قر یب مدارس کو واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے ، صوبائی حکومت نے صوبے کے بعض علاقوں میں فروخت ہونے والی نفرت انگیز مواد پر مشتمل تقاریر کُتب اور سی ڈیز کے خلاف بھی کر یک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔امر یکی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت کے محکمہ داخلہ کے سیکرٹری اکبر حُسین درانی کا کہنا ہے کہ جن چار مدارس کو سیل کیاگیا ہے اُن کو کچھ عر صے سے واچ کیاجارہا تھا اور ان مدارس میں ہو نے والی سرگرمیوں کے بارے میں صوبائی حکومت کے پاس ٹھوس شواہد جمع ہو گئے تھے جس کے بعد کاروائی کر کے اُن کے سیل کردیا گیا اور ان مدارس کو چلانے والے بعض رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا گیاہے، اکبر حسین دُرانی کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ بات طے ہو ئی ہے کہ کسی کو بھی دوسرے مسلک کے خلاف نفرت انگیز تقر یر کی اجازت نہیں دی جائییگی، اور مدارس میں وفاق المدارس کی منظور کر دہ کُتب پڑھانے کی اجازت ہو گی اور کو ئی ایسی اختر اع کی اجازت نہیں ہو گی جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہو، انہوں نے کہا کہ جہاں بھی سر کار کے کئے گئے فیصلے پر عملدر آمد نہیں ہو تا ہے وہاں کاروائی کی جاتی ہے، اور جو مدارس سیل کئے گئے ہیں وہ بھی اسی زمر ے میں آتے ہیں ۔بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی نے امر یکی ریڈیو کو بتایا کہ صوبے میں جو بھی انتہا پسندی یا دہشت گردی کو فروغ دے گا اُس کے خلاف کاروائی کی جائیگی انہوں نے کہا کہ حکومت دو طرح کی کاروائی کر ر ہی ہے چاہے وہ مدارس ہوں چاہے اسکولز ہوں ، چاہے وہ کو ئی بھی جگہ ہو ، ایک تو وہ جہاں دہشگردوں کے لئے کو ئی فیسلیٹیشن کا انتظام کیاجاتا ہے اور جس کی ہمیں خاطرخواہ ثبوت مل جاتے ہیں تو اُن کے خلاف ہم کاروائی ضرور کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ، دوسرا وہ جو ان رجسٹرڈ مدرسے ہیں یا ان رجسٹرڈ اسکول ہیں یا ان رجسٹر ڈ ہوٹلز ہیں اُن تمام کے خلاف بھی حکومت بلوچستان نیشنل ایکشن پلان کو سامنے رکھ کر کاروائی کر رہی ہے او ر ایسے میں اگر کو ئی مدرسہ ہے تو کاروائی کی ہو گی ،کو ئٹہ میں ایک مدرسہ نعمانیہ کے مہتمم مو لانا عبدالقادر لونی کا کہنا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں سے کو ئی بھی مدارس کو کسی بھی مد میں کو ئی امدادی رقم نہیں دیتی ، زیادہ ترمدارس مخیر حضرات کے تعاون سے چل رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے پابندیوں کا کو ئی جواز نہیں بنتا، مو لانا لونی نے کہا کہ جو مدارس بند کئے گئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اس پے نظر ثانی کرے وہ اہل مدارس سے بیٹھ جائیں ہمارے ساتھ مذاکرات کر ے اگر کو ئی ایسا ثبوت وہ پیش کر لے بجائے اس کے کہ حکومت چھاپہ مار لے ہم خوداہل مدارس ، ہم مدرسوں والے ہیں ہم مہتمم ہیں ہم اُس مدرسے سے کہیں گے کہ آپ بند کر یں رضاکارانہ طور پر،بلوچستان میں اس وقت مدارس کی تعداد دو ہزار سے زائد بتائی گئی ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان مدارس کی چھان بین اور غیر رجسٹرڈ مدارس کو رجسٹرڈکرنے کا عمل ایک سال گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہوسکا، ان مدارس میں ایک لاکھ 43ہزار سے طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں، جن میں 5258 غیر ملکی طلبا بھی شامل ہیں جن میں اکثر یت افغان مہاجر ین کے بچوں کی۔